ریاستی تشکیل سیرت النبی ﷺ کے تناظر میں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ریاستی تشکیل سیرت النبی ﷺ کے تناظر میں

    آپ ص رہتی دنیا تک کے لوگوں ک لیے رشد و ھدایت کا منبع ہیں ۔ اور بہترین حکمت عملی کے تحت ایک اعلی ریاست کو تشکیل دیا جسکی کہیں نظیر نہیں ملتی ۔

    By Muhammad Adnan Published on Aug 17, 2020 Views 3335

    "ریاستی تشکیل سیرت النبی کے تناظر میں"

    محمد عدنان۔ خیرپورٹامیوالی


    سیرت النبی ایسا عنوان ہےجس کےمتعلق جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے کئی پہلوؤں سے پڑھا اور سمجھا جاتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؟ آپ کی حیات طیبہ کو قرآن حکیم نے انسانیت کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔آج ہمارے ہاں یہ موضوع مسجد ومحراب سے لے کر درسگاہوں تک، عام پبلک سے لے کر سوسائٹی کے پڑھے لکھے طبقوں تک گویا  ہر جگہ زیر بحث رہتا ہے اورپھر دینی اجتماعات میں تو خاص طور پر آپ کی حیاتِ طیبہ کے تذکرے جاری رہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس موضوع پر کی جانے والی گفتگو میں آپ کی ذاتی زندگی کے مختلف پہلو تو بیان کیے جاتے ہیں لیکن آپ کا وہ اجتماعی کردار جو ظلم و بربریت کے خاتمے اور ایک فساد زدہ معاشرے کو ترقی اور خوشحالی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیےادا کیا گیا تھا، سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے۔

    حقیقت تو یہ ہےکہ رسول اکرم تو مکہ کی سوسائٹی کے ایک ایسے رہبر و رہنما تھے کہ جنھوں نے باکمال قائدانہ بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئےظالمانہ سسٹم کی عبودیت اور ان کی قائم کردہ بت پرستی سے اس معاشرے کو نکال کر ایک خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دی۔اپنے خالق حقیقی کی نازل کردہ انسانیت دوست تعلیمات کا نہ صرف شعور عام کیا بلکہ اس پر عملی معاشرے کی تشکیل کی انتھک جدوجہد فرمائی۔آپ کی پوری زندگی  ظلم و جبر کے خاتمے اور دین اسلام کی انسانیت دوست تعلیمات کے غلبےکے ان تمام تر اقدامات پر مشتمل ہے جو ایک صالح معاشرے کے قیام کے لیے اس دور کی بنیادی ضرورت تھے جیساکہ قبل از بعثت معاہدہ حلف الفضول میں قائدانہ کردار، مکہ میں ظلم کے خلاف مزاحمتی شعور و بصیرت سے لیس جماعت کی تیاری، ہجرت کے بعد مدینہ میں میثاق مدینہ اور ریاستی تشکیل، جنگوں اورصلح کی مؤثر  حکمت عملی وغیرہ۔آئیے! درج ذیل سطور میں آپ کے اس عظیم کردار پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    اللہ رب العزت نے ہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے بے شمار انبیاؑ مبعوث فرمائے ہیں جنھوں نے اپنے ہاں نظریۂ توحید کا پرچار کیا جس کا مقصد دراصل انسانوں کو ظالم انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینا تھا گویا اللہ کی پیدا کردہ تمام نعمتوں کو ہردور کے فرعونوں اور نمرودوں کے ناجائز تسلط سے واگزار کراکے اللہ کی مخلوق کے لیے عام کرنا تھا۔خود حضور نبی اکرم کی بعثت بھی جس معاشرے میں ہوئی وہاں بھی ابوجہل اورمکہ کی اشرافیہ کا راج تھا ۔ظلم اپنے پنجے جمائے انسانیت کو محکومی کا شکار کیے ہوئے تھا۔آپ اس معاشرے میں عدل وانصاف کے قیام کی نوید بن کر تشریف لائےاور یہ آپ اور آپ کی جماعت ہی کی ان مقدس کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف جزیرۃ العرب بلکہ دنیا بھر میں ظالمانہ نظاموں کا خاتمہ ہوا اور انسانیت عدل، امن اور معاشی خوشحالی کی عظیم نعمتوں سے مستفید ہوئی۔

    آپ کی طبیعت سلیمہ بعثت سے قبل ہی معاشرے میں جاری ظلم و ستم سے نالاں تھی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف پندرہ برس کی عمر میں آپمکہ میں ظلم کے خلاف کی جانے والی پہلی اجتماعی کاوش یعنی معاہدہ حلف الفضول میں بھی بھرپور شریک ہوئےاور اس کے ذریعے جس حد تک ممکن تھا مظلوموں کی داد رسی فرمائی۔اسی طرح حجر اسود کی تنصیب کے معاملے پر جب معاشرہ نفرت اور کشت وخوں کے کنارے پر تھا  آپ نے کمال دانشمندی سے اس معاشرے کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے میں اپنا بھرپور کردارادا کیا۔

    آپ نے مکہ میں قبل از نبوت جس اعلیٰ کردار و عمل کا مظاہرہ فرمایا اس کے اعتراف کے طور پر آپ اس معاشرے میں صادق اور امین کہلائے۔اپنے اور غیر سب آپ کے قول و فعل پر بھرپور اعتماد کرتے تھےلیکن جب آپ نے نبوت ملنے کے بعد حقیقی معنوں میں صداقت ، امانت اور انسانیت کو ان حقوق کی فراہمی کے عملی نظام کے قیام کی جدوجہد  کا آغاز فرمایا تو مکہ کی اشرافیہ نے آپ کی مخالفت شروع کردی ۔ ان کے لیے یہ بات قطعی طور پر قابلِ قبول نہیں تھی کہ وہ مکہ کے عام شہریوں کو اپنے برابر قراردیں۔اسی لیے اعلانِ نبوت کے بعد قریش نے آپ اور آپ کے نام لیواؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔مکہ میں آپ کا کوئی بھی لمحہ اذیت کے بغیر نہ گزرا لیکن آپ نے کسی بھی قسم کے جوابی اقدام سے قطعی طور پر گریز فرمایااور ظلم و بربریت کے جواب میں صبرو استقامت کا دامن تھامے رکھااور اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی،کہ نظمِ نو کی تشکیل عدم تشدد کی اساس پر متبادل اجتماعیت کے قیام کا تقاضا کرتی ہے۔جنگ و جدل اور ہیجان زدہ فضا میں کبھی بھی ایک اجتماعی طاقت و قوت پیدا نہیں کی جاسکتی۔اس لیے نبی اکرم کا مکی دور عدم تشدد اور افراد سازی کا دور ہے جس میں آپ اور آپ کے رفقاء قرآن حکیم کے اس حکم "اپنے ہاتھوں کو تھامے رکھو" پرسختی سے عمل پیرا رہے۔اس دور میں تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی گئی، ہتھیار نہیں اٹھائے گئےکیونکہ جب تک حکومت چلانے کی استعداد پیدا نہ ہو کوئی بھی پارٹی صرف لڑ کر نیا نظام حکومت قائم نہیں کر سکتی اس کے لیے ایک تربیت یافتہ جماعت کی ضرورت ہوتی ہےاورجماعت کا قیام عدم تشدد کے بغیر ممکن نہیں ہوتاچناں چہ آپ کے اسوۂ حسنہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اجتماعیت کی تیاری اور تربیت کے بغیر اقدام (عسکری ہو یا سیاسی) کا راستہ اختیار کرنا آپ کے مشن اور جدوجہد سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔

    جماعتی طاقت و قوت کی تیاری کے بعد اگلا مرحلہ سوسائٹی کے مختلف عناصر سے ربط قائم کرکے ان مواقع کی دریافت ہوتا ہے جنھیں منظم شکل دے کر نظام ظلم کے تار پود بکھیر دیے جائیں۔لہٰذا آپ کی جماعت کو جب مدینہ میں اپنی فکر کی پذیرائی کے لیے سازگار ماحول میسر آیا تو ہجرت مدینہ کا عمل اختیار کیا گیا۔آپ نے سب سے پہلے انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کر کے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو تقویت بخشی اور مدینہ کے قبائل کو ساتھ ملا کر میثاق مدینہ کی اساس پر باقاعدہ ریاستی نظام تشکیل دیا۔

    میثاق مدینہ انسانی تاریخ کا سب سے پہلا جامع اور تحریری دستور ہےجو نبی اکرم اور آپ کے نام لیواؤں کی جانب سے غیر مسلم قبائل کے ساتھ کیا گیا ۔یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ جو لوگ(خصوصاً مستشرقین) دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا (یعنی جو اسلام کا انکار کرے اسے قتل کر دیا جائے) تو میثاق مدینہ ان لوگوں کے لیے واضح ثبوت ہے کہ غیر مسلموں کو کفر کی  بنا پر قتل کرنا مقصود ہوتا تو ان کے ساتھ مل کر ایک ریاستی نظام تشکیل نہ دیا جاتا۔جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ ریاستی تشکیل کے بعد  ان طاقتوں کے خلاف عمل میں آئی جنھوں نے میدان میں آکر مسلمانوں کو للکارا یا ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہوئے۔

    آپ کی حیات طیبہ میں کل 27 غزوات ہوئے اور ان میں سے صرف 9 غزوات میں جنگ ہوئی۔اور جنگ سے قبل بھی اس بات کا اہتمام رکھا گیا کہ حتی الامکان  خونریزی سے گریز کیا جائے اس لیے مدمقابل قوتوں کے سامنے درج ذیل شرائط رکھی جاتی تھیں۔

    ۱۔  کلمہ پڑھ لو (ہمارے نظام و فلسفہ دونوں کو مان لو)۔

    ۲۔ سلطنت میں شامل ہوکر جزیہ دو (ہمارے اقتصادی اور ہمہ گیر عادلانہ نظام کو مان لو)۔ یا پھر

    ۳۔  جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔

    دین دشمن عناصر بالخصوص یورپین مستشرقین نے اسلام دشمنی میں جزیہ کو بہت خوفناک بنا کر پیش کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ ٹیکس ہے جس کی ادائیگی کے بعد قومیں اپنی حفاظت  کی غرض سے مسلمانوں کے ما تحتی قبول کرلیتی ہیں گویا مسلم حکومت ان کے جان و مال اور ان کی آبرو غرضیکہ تمام زندگی کی حفاظت کی ذمہ دار قرارپاتی ہے۔اس ٹیکس کی ادائیگی کے بعدماتحت قوم تمام تر حقوق میں مسلمانوں کی برابر کی حقدار بن جاتی ہے۔ بچوں،بوڑھوں اور عورتوں سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا تھا اور جو نہیں دے سکتا تھا تو اس کو معافی بھی دی جاتی تھی۔جزیہ پر اعتراض کرنے والے خصوصاً یورپ کی نام نہاد مہذب اقوام تھوڑی دیر کےلیے خود بھی انصاف سے دیکھیں کہ کیسے حکومت کسی ماتحت قوم کی اس قدر معمولی رقم کے عوض اس قدر بڑی ذمہ داری اس انداز سے اپنے سر لیتی ہے کہ اس کے بعد حاکم و محکوم قوم کے درمیان حقوق کی فراہمی اور تحفظ میں کوئی امتیاز ہی باقی نہیں رہتا۔

    پھر ہمارے ہاں جہاد کا تصور بھی منفی معنوں میں پیش کیا جاتا ہے اور اسے محض لڑائی بھڑائی اور مخالف کی گردن زدنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حالانکہ دین کے نظریۂ جہاد سے مراد وہ اعلیٰ درجے کی کوشش ہے جواللہ کی راہ میں انسانیت کو ظلم پسند طاقتوں کے چنگل سے نکال کر  ایک عادلانہ معاشرے کے قیام کےلیے کی جاتی ہے۔اسی لیے مولانا سندھی ؒاسے ایک مقدس عداوت سے تعبیر کرتے ہیں۔ جہاد سماجی تعمیر و تشکیل کے لیے کی جانے والی اس  جدوجہد کا عنوان ہے جس میں اعلیٰ مقاصد کے لیے خود کو آمادہ کرنا،صالح فکر کی تشہیر اور اس پر جماعتی تربیت کے لیے قلم اور زبان و بیان کی طاقت استعمال کرنا، مصائب پر صبرواستقامت کا مظاہرہ کرنا اور ضرورت پڑنے پر مذکورہ بالا شرائط پیش کرنے کے بعد میدان جنگ سجانا وغیرہ سب شامل ہیں۔

    جہاد کا عمل چونکہ بنیادی طور پر بقائے انسانیت کے لیے ہے اس لیے جنگ ہونے کی صورت میں کم سے کم جانی نقصان اور پھر خاص طور پر مظلوم انسانیت اور اس کے لیے نفع بخش چیزوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے کےلیے آپ نےخاص طور پر درج ذیل اصول جنگ طے فرمائے ہیں۔ آپ نے جنگی اصولوں پر وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

    ۱۔ بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔

    ۲۔ مثلہ نہ کیا جائے اور اذیتیں نہ پہنچائی جائیں۔

    ۳۔ جو لڑائی میں شریک نہ ہو اسے نہ مارا جائے۔

    ۴۔ دشمن کے مکانات نہ جلائے جائیں۔

    ۵۔ پھل دار درخت نہ کاٹے جائیں۔

    کیا پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں خونخوار درندوں کی طرح لڑنے والے،اس کے بعد اپنے معاشی مفادات کے لیے قوموں اور ملکوں پر جنگیں مسلط کرکے انھیں کھنڈر بنانے والے اور دین اسلام کی تعلیمات و افکار کے ساتھ دائمی بغض رکھنے والے تہذیبِ جدید کے دعویدار مذکورہ بالا جنگی اصولوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے اس سے کوئی سبق حاصل کرنا پسند فرمائیں گے ؟؟؟

    دینی اسلام اپنے اس تصور میں بہت واضح ہے کہ جنگ یا قتال اصل میں مقصود نہیں بلکہ یہ تو اعلٰی تر انسانی مقاصد یعنی برائی اور ظلم کا خاتمے کے لیے ہے اور اگرکہیں یہ مقصد بغیر لڑے حاصل ہو جاتا ہے تو پھر جنگ کو ٹال دینے کی حکمت عملی بھی اختیار کی جاتی ہے۔صلح حدیبیہ کا واقعہ اس امر کی بہترین مثال ہےکہ بظاہر مسلمانوں کو صلح کی شرائط بہت سخت لگ رہی تھیں اور خصوصاً حضرت عمر فاروق ؓ سخت رنجیدہ تھے اور بار بار آپ سے عرض کرتے کہ طاقت کے ہوتے ہوئے ہم کیوں دب کر صلح کر رہے ہیں؟حضور نے فرمایا کہ خدا کی مرضی اسی میں ہے اور عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ ہمارے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔اس لیے ایک بہترین سیاسی مدبر ہونے کے ناطے آپ اس صلح کو کامیابی کے طور پر دیکھ رہے تھے اور ہوا بھی پھر ایسے ہی کہ جب صلح ہو گئی تو امن امان کے ساتھ آمدورفت شروع ہو گئی۔جس سے اشاعت اسلام کی راہ ہموار ہوئی اور لوگ بڑی تیزی سے اسلام میں داخل ہونے لگے۔اور اسی صلح کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے مکہ کو بغیر لڑے فتح کر لیا۔

    اسی طرح غزوہ بدر میں 70 قریشی سردار جو قید ہوئے انھیں فی الفور قتل کرنے کی بجائے یہ کہاگیا کہ فدیہ کے طور پر ہمارے بچوں کوتعلیم اور ریاستی امور سکھاؤ۔اسی کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے عملی نظام نے عوام الناس کو اپنے حسن سلوک اور عادلانہ رویوں سے متأثر کیا یہی وجہ ہے کہ جب حضرت معاذؓ  اور ابو موسٰی اشعری ؓ کوجب یمن کا حاکم بنا کر بھیجا گیا تو آپ نے انھیں یہ فرمایا" دیکھو تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا، سخت گیری نہ کرنا چاہے دعوت وتبلیغ ہو یا سیاسی معاملات ہوں"۔

    اب جہاں تک ریاست مدینہ کی تشکیل کا تعلق ہے تو ہمیں اس ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں میں درج ذیل انسانی اصول کارفرما نظر آتے ہیں۔

    ۱۔ آزادی و حریت کی حفاظت (ریاست کو اپنے ریاستی امور اور فیصلوں میں آزادی ہو)۔

    ۲۔تمام معاہدات عدل اور مساوات کی اساس پر ہوں۔

    ۳۔امن و امان کو مشاورتی نظام کے ذریعے یقینی بنایا جائے۔

    ۴۔معاشی خوشحالی کو فروغ دیا جائے۔

    ۵۔  بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب یکساں حقوق کی فراہمی۔

    خلاصہ یہ کہ ہمیں سیرتِ نبوی کو اجتماعی اور خاص طور پر انسانی بنیادوں پر ریاستی تشکیل کے نکتۂ نظر سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیےاور آج کے دور میں تو اس امر کی ضرورت اس اعتبار سے بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ ہم من حیث القوم ایک بدترین سماجی، معاشی اور اجتماعی بحران کا شکار ہیں۔گو ہمارے ہاں ریاست مدینہ کا راگ الاپنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن جب تک اس ریاستی تشکیل  کی علمی اور فنی بنیادیں پیش نظر نہیں ہوں گی اور خاص طور پر نبویؐ کی جدوجہد کے اس مکمل منہج سے ہم آگاہی حاصل نہیں کریں گے جو درحقیقت اس ریاست کے قیام کی بنیاد بناتھا ، اس وقت تک ہم اظہار عقیدت کا فریضہ تو ضرور سرانجام دیتے رہیں گے لیکن اپنے معروضی حالات کا تجزیہ کرکے سیرت طیبہ سے اپنے اجتماعی مسائل کے حل میں رہنمائی حاصل نہیں کرسکیں گے۔

    Share via Whatsapp