عقیدہ ختمِ نبوت کی پُکار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عقیدہ ختمِ نبوت کی پُکار

    عقیدہ ختمِ نبوت کی پُکار؛ ختمِ نبوت اور عشقِ رسول ﷺ کا تقاضا

    By سفیان خان Published on Mar 05, 2024 Views 1053
    عقیدہ ختمِ نبوت کی پُکار 
    تحریر : سفیان خان۔ بنوں 

    انا خاتم النبیین لا نبی بعدی! 
     نبوت کا تحفہ ملتا ہے۔ قرآنی نظامِ حیات کو واضح اور غالب کرنے کا مشن 23 سال میں تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ 632ء کو رسول اکرمﷺ اس دُنیا سے رحلت فرما جاتے ہیں۔
    وفات سے قبل نبی کریمﷺ  دو ٹوک لفظوں میں یہ بات واضح کردیتے ہیں کہ یہ جو قرآنی نظامِ حیات ہے، جس کی تکمیل ہوچکی ، یہ قیامت تک انسانی معاشرے کے ہر ایک مسئلے کو حل کرنے کی خوبی رکھتا ہے۔
    اَب میرے بعد کسی دوسرے پیغمبر اور  فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ہی آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔ اس لحاظ سے ہر ایک موحد کے لیے لازمی ہے کہ وہ عقیدہ ختمِ نبوت پر دل و جان سے یقین کرے۔ کیوں کہ اس عقیدے سے انحراف قرآن و سنت کی جامعیت (Perfection) پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔
    عقیدہ ختمِ نبوت کا تقاضا یہ ہے کہ نبی آخر الزماںﷺ کے بعد کوئی بھی نبوت کا دعوی کرے تو وہ جھوٹا سمجھا جائے۔ اسی طرح قرآنی فکر کے بعد کوئی بھی اس سے متصادم فکر جھوٹی فکر سمجھی جائے جو بھی قانون قرآن کے اصولوں سے متصادم ہو،وہ شیطانی اور طاغوتی سمجھا جائے۔ اور یہ سب اس لیے ہے کہ انسانی سوسائٹی سے امراض کا خاتمہ صرف اسی میڈیسن سے ممکن ہے، جس پر الٰہی مُہر ثبت ہے اور جس کے Marketer اور Advertiser خود نبی آخر الزماںؐ ہیں، جو تئیس سال تک لوگوں کو اِس شفا بخش میڈیسن کا طریقہ استعمال سکھاتے رہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب بھی سماجی امراض کا علاج، محمدی نسخے کے بجائے کسی دوسرے نسخے میں تلاش کیاجائے گا تو نتیجہ امراض کی وسعت اور پھیلاؤ کی شکل میں ہی نکلتا رہے گا۔
    اَب ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم عقیدہ ختم نبوت کے کتنے پکے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں اپنی سوسائٹی کی بنیادی ساخت پر غور کرنا ہوگا۔ 
    کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں کوئی نہ کوئی فکر کارفرما ہوتا ہے۔ پھر اسی فکر کی روشنی میں سماج کا بنیادی ڈھانچہ (سیاسی نظام،معاشی نظام،تعلیمی نظام) تشکیل پاتا ہے۔ ریاست کے دیگر تمام ادارے بھی اسی فکر کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ فکر انسان دوست (رحمانی) بھی ہوسکتا ہے اور انسان دشمن (شیطانی) بھی۔ تاہم کسی فکر کے اچھے اور برا ہونے کا اندازہ تب لگایا جاسکتا ہے، جب اس فکر کی اساس پر بننے والے اداروں کی کارکردگی کو دیکھا جائے۔
    ہمارے سماج کا نظریاتی ڈھانچہ اور اس کے خد و خال: 
    سیاسی نظام: میکیاولی کے فکر و فلسفہ پر۔ 
    معاشی نظام: ایڈم سمتھ کے فکر و فلسفہ پر۔ 
    تعلیمی نظام: لارڈمیکالے کے فکر و فلسفہ پر۔ 
    ہمارا سیاسی نظام جس فکر کے تابع ہے وہ نیکولو میکیاولی کا نظریہ ہے۔ میکیاولی کے مطابق کامیاب حکمران وہ ہوتا ہے جو مکر و فریب اور چال بازی میں ماہر ہو، جبر و تشدد سے اپنے کام نکال سکتا ہو اور جو مذہب کو بہ طورِ ٹول استعمال کرنا جانتا ہو۔ میکیاولی زندہ ہوتا تو یقیناً فخر محسوس کرتا کہ یہ دیکھو !میرے کامریڈ ،میری ہر ایک نصیحت پر کتنی شدت سے عمل پیرا ہیں۔
    ہمارا معاشی نظام جس فکر کے تابع ہے، وہ ایڈم سمتھ کا نظریہ ہے۔ایڈم سمتھ کے مطابق معاشی نظام سرمائے کے گرد گھومنا چاہیے۔مخصوص طبقے میں وسائل کی تقسیم ہونی چاہیے، محنت کش طبقے کو سرمایہ دار کاتابع ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق جس کے پاس سرمایہ ہوگا وہی عزت، شہرت اور نیک سیرت سمجھا جائے گا، اور جس کے پاس سرمایہ نہ ہو، وہ ذلیل، بدبخت، بے نام اور گناہگار تصور ہوگا۔ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ"وطنِ عزیز میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 40 فی صد (10 کروڑ) ہے"
    ہمارا تعلیمی نظام جس فکر کے تابع ہے اُس کے خالق لارڈ میکالے ہیں۔ لارڈ میکالے کے مطابق ایک اچھا تعلیم یافتہ وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بے شعور، جذباتی، انسانیت سے نفرت کرنے والا، خلوت پسند اور بداخلاق ہو۔ میکالے کے فکر کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے کارکن تیار کیے جائیں جو نظامِ زر کی بقا میں کلرک اور مینیجر کا کردار ادا کریں۔مذکورہ تینوں مفکرین کادور حسب ذیل ہے!
     میکیاولی( 1513ء) ۔۔۔(The Prince) 
     ایڈم سمتھ( 1790ء) ۔۔۔(Wealth of Nations)
     لارڈ میکالے ( 1835ء) ۔۔۔(Minute on Education)
    ہم سب جانتے ہیں کہ فکرِ نبوی ﷺ کا ظہور 610ء میں ہوا جو 23 سالہ عرصے میں مکمل ہوا۔ اس لحاظ سے درج بالا تمام افکار نبوی فکر کے بہت بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ 
    اب دیکھنا یہ ہے کہ نبوی فکر کے بجائے بعد میں آنے والے افکار کی اطاعت کرنا کہیں عقیدہ ختمِ نبوت سے انحراف تو نہیں؟
    آج آئے دن خبریں چلتی ہیں کہ فلاں ملک نے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کردی، فلاں شخص نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا وغیرہ وغیرہ۔ 
    دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے خود کتنے جھوٹے افکار کو نبوی فکر پر ترجیح دے رکھی ہے، کتنے ہی ایسے قوانین ہیں جو قرآنی اصولوں سے انحراف کیے ہوئے ہیں۔ کیا نبوی فکر کو پس پشت ڈال کر کسی فرسودہ فکر کو اپنانا، نبی آخر الزماںﷺ کی گستاخی نہیں ہے؟ 
    آج ہم دشمن سے گلہ کرتے ہیں، احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں کہ آپ ہمارے رسولﷺ اور ہماری کتاب قرآن مجید کو عزت کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے، حال آں کہ ہمیں خود سے پوچھنا بنتا ہے کہ ہم نے خود نبویﷺ تعلیمات اور قرآن مجید کو کتنی عزت دی ہوئی ہے۔ عزتیں اُن کی ہوتی ہیں، جن کا فکر غالب ہو، جن کا اپنا نظامِ حیات ہو۔ کیا قرآن کو الماری میں رکھ کر کسی دوسرے نظامِ حیات کے آگے سر جُھکانا قرآن اور نبی آخر الزماں ﷺ کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟
    آج عقیدہ ختمِ نبوت اس بات کی دعوت دے رہا ہےکہ تمام باطل افکار اور تمام فرسودہ نظاموں کی بیخ کنی ہونی چاہیے اور جس نظام فکر میں سماج کی ہر بیماری کا علاج موجود ہے، اُسی نظامِ فطرت کو تمام نظاموں پر غالب ہونا چاہیے۔ یہی عشقِ رسول ہے، یہی حُکمِ الٰہی ہے اور یہی عقیدہ ختمِ نبوت کا تقاضا ہے۔ آج بہ حیثیتِ مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے کہ دین نبویﷺ اور قرآنی فلسفہ کو اساس بنا کر اپنا نظامِ حیات تشکیل دیں، تاکہ ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین ﷺ کی شان، قرآن کریم کی تعظیم اور بہ طورقوم ہماری عزتیں، ہماری پہچان بحال ہو اور ہماری آواز قابلِ سماعت بن جائے۔
    Share via Whatsapp