نظام کا شعور اور انفرادی اصلاح - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نظام کا شعور اور انفرادی اصلاح

    نظام کا شعوری تجزیہ، سماج کا اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ اور انسانیت دوستی کا نظریہ وقت کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت ہے

    By Muhammad Zahid Published on Nov 13, 2021 Views 1114
    نظام کا شعور اور انفرادی اصلاح
    محمد زاہد مروت۔ اسلام آباد 

    ہم معاشرے میں اکثر سنتے ہیں کہ نظام پر بات نہ کرو، بلکہ خود ٹھیک ہوجاؤ تو معاشرہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن جب انسانی معاشرے کو درست، مساوی اور انسانی بنیادوں پر چلانے کے بجائے اس کو غلط اصولوں پر قائم کیا گیا ہو اور اس کے نتیجے میں انسانی سماج طبقہ واریت، خودغرضی  و لالچ، مفادپرستی و اِنفرادیت پسندی کے روگوں کا شکار ہوکر غیر انسانی بنیادوں پر قائم ہوگیا ہو تو اس وقت یہ بیانیہ درست نہیں ہوگا۔ 
    تعلیم انسان میں انسانی خواص پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور تعلیم کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کی تربیت ایک اہم جُز ہے، لیکن جب نظام تعلیم عوام کا الگ اور خواص کا الگ ہو، عوام کو حکمرانوں کی اطاعت شعاری اور خواص کو حکمرانی (اعلیٰ ترین نجی تعلیمی ادارے، جن کے نصاب میں افسر شاہی اور حکمرانی بچپن سے سکھائی جاتی ہے بہ مقابلہ گورنمنٹ سکول جن کا نصاب، خواص اپنی اطاعت گزاری کے لیے بناتے ہیں) تو اس معاشرے میں افراد میں حریت و آزادی کے جذبے کے بجائے ہر طاقت ور کے سامنے جھکنے کی عادت پیدا ہوگی، اجتماعیت کے بجائے اِنفرادیت پسندی پیدا ہوگی۔ 
    ایک بچہ جو بچپن سے نوکری کی سوچ کے ساتھ معاشرے میں پروان چڑھے اور اسی کا ہم عمر بچہ حکمرانی، افسر شاہی اور دوسروں کو اپنا محکوم سمجھنے والی سوچ کے ساتھ معاشرے میں پلے بڑھے تو وہ خود کو قوم کا خادم سمجھنے کے بجائے حاکم اور مخدوم ہی قرار دے گا۔ ایسے حالات میں نیچے والا طبقہ جو کہ عوام کا ہے، وہ جتنا مخلص ہوگا، اس کا فائدہ ملک کے لیے پالیسیز بنانے والے خواص کےطبقے کو ہی ہوگا، جن کی سوچ افسر شاہی اور حکمرانی کی ہوتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ایسی پالیسیز بنائیں گے، جن سے عوام اور خواص میں جو فرق اور تفاوت ہے وہ ختم یا کم از کم گھٹنا شروع ہو جائے؟ 
    ہمارے معاشرے میں خواص کے طبقہ کے لیے علاج معالجہ الگ، تعلیمی معیار الگ، رہن سہن کے طریقے،حکمرانوں کو جو سہولیات میسر ہیں وہ 1:99 کے حساب سے ہیں یعنی عوام کو 1 فی صد بھی سہولیات میسر نہیں، تو کیا یہ طبقہ ان تعیشات کو ختم کرنے پر راضی ہو جائے گا جو سالہاسال سے انھیں میسر ہیں اور عوام کی زندگی میں عام سماجی سہولیات تو کیا، بلکہ ضروریات تک بھی میسر نہیں، کہ جن کی تکمیل کے بعد معاشرے میں عوام کی عادات و اخلاق درست ہوں، ان کی سماجی زندگی میں بہتری آجائے۔
    دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے یہ واقعی حقیقی سماجی تجزیہ پیش فرمایا ہے کہ اگر کسی قوم کو معاشی طور پر افلاس کا شکار کیا جائے تو اس قوم کے اِنفرادی و اجتماعی اخلاق ختم ہو کر رہ جاتے ہیں اور ایسی صورتِ حال میں جب لوگ معاشی تنگ دستی اور دیگر سماجی مصائب کا شکار ہوں اور انھیں اخلاقی طور پر ٹھیک ہونے کا کہا جائے تو یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک راہ چلتے آدمی کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جائے اور وہ اس وَجہ سےگرجائے تو پھر لاٹھی بھی اسی کو ماری جائے کہ کیوں گرے۔
    خود ٹھیک ہونا ایسا ہی ہے کہ چار پانچ بندے کشتی میں سفر کر رہے ہوں، بیچ سمندر میں کشتی میں سوراخ ہوجاتا ہے، جس سے کشتی کے ڈوبنے کا خطرہ ہے، اَب ایک بندہ جو سوراخ کے پاس ہے وہ اپنی پوری توانائیاں مخلصانہ انداز میں صرف کر رہا ہے کہ پانی کو اندر آنے سے روکا جائے، لیکن ساتھ میں دوسرے اس کی مدد کو نہیں آرہے کہ ہماری طرف تو کوئی سوراخ نہیں اور کوئی پانی نہیں آرہا، لہٰذا یہ اس اکیلے کا فرض ہے۔ اَب یہ ممکن نہیں کہ یہ اکیلا بندہ پانی کو روک پائے اور کشتی کو ڈوبنے سے بچا پائے، تو کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ سب مل کر اپنی زندگی کی حفاظت کریں۔ سماج اجتماعیت کا نام ہے، جس میں وحدت پیدا کرنا، ایک اہم فریضہ ہے۔ اسی تناظر میں سماج میں جتنے مسائل ہیں وہ کسی ایک فرد کے نہیں، بلکہ پورے سماج کے مسائل ہیں۔ آج جو مسئلہ میرا ہے، کل وہی مسئلہ آگے بڑھ کر دوسرے کی زندگی میں پریشانی پیدا کرسکتا ہے۔
    ہمارے جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار ہوتا ہے جو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ مسئلہ کسی اِنفرادی عضو کا نہیں ہے، بلکہ پورے جسم کا ہے۔ اسلام کا تو یہی فرمان ہے تم سب ایک جسم کے مانند ہو۔ اَب اگر امت کے کسی ایک حصے میں درد ہوگا یا کوئی مسئلہ ہوگا تو پوری امت اضطراب اور بے چینی کی حالت میں ہوگی۔
    بھوک اجتماعی مسئلہ ہے، اسے کوئی اِنفرادی طور پر ختم کرنے کی کوشش کرےگا تو ایک خاص حد اور کوشش کے بعد ہاتھ اٹھا لے گا، لیکن اگر یہی مسئلہ ملکی نظام حل کرنا چاہے تو بہت جلد ایک مستقل حل نکال سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس مسائل کو حل کرنے کے آئینی و قانونی اختیارات اور سماجی وسائل موجود ہیں۔ اسی طرح تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان، جان و مال کا تحفظ، ظلم و زیادتی اور بھوک و افلاس کو ختم کرنا، نظام حکومت کا فرض ہے۔ اجتماعی نظام، اجتماعیت کے اصول پر پورے سماج کے تمام مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور دین اسلام اسی اجتماعی نظام کی تشکیل کی رہنمائی دے کر اجتماعیت کو اِنفرادیت پر فوقیت دیتا ہے۔ 
    نظام کا شعوری تجزیہ، سماج کا اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ اور انسانیت دوستی کا نظریہ وقت کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت ہے۔ دنیا میں جتنی اقوام آج آزاد اور ترقی یافتہ ہیں وہ اپنے نظام اور تاریخ سے واقف اور باشعور ہیں۔ ان کے ہاں الگ الگ درجنوں نصاب نہیں ہیں، ان کے ہاں طبقاتی سوچ نہیں کہ کسی کے لیے سب کچھ مفت ہو اور کسی کو کچھ میسر نہ ہو۔ ایک نظریہ پر قائم قوم طبقہ واریت کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ یہ سوچ درست قرار دی جا سکتی ہے کہ صرف خود ٹھیک ہو جاؤ تو نظام بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ 
    اس تناظر میں اس وقت ہم نوجوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف نظاموں کا مطالعہ، تنقیدی تجزیہ برائے تعمیر اور اپنے ملکی نظام سے موازنہ کرکے اپنی ملکی مسائل کے ممکنہ حل کے بارے میں سوچیں۔ ہمیں ایسا تجزیاتی مطالعہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ نظام سرمایہ داریت، سوشل اِزم اور اسلام، انسانیت کے مسائل کا حل کس طرح دیتے ہیں۔ ان میں کون سا سماجی نظام حقیقت میں پوری انسانیت کی حقیقی اور جامع فلاح و کامرانی چاہتا ہے اور اسے آگے بڑھتے دیکھنا چاہتا ہے۔
    Share via Whatsapp