فرنٹ لائن اور طبقاتیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • فرنٹ لائن اور طبقاتیت

    عنوانات رکھ کر اشرافیہ اسراف کے راستے ہموار کرتی ہے اور جن کا نام لیا جاتا ہے وہ محروم رہتے ہیں

    By ڈاکٹر محمد عارف بہاولپور Published on Aug 23, 2020 Views 2848
    فرنٹ لائن  اور طبقاتیت
    ڈاکٹر محمد عارف۔ بہاولپور

    فرنٹ لائن سپاہی کے طور پر ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے باقاعدہ گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور حوصلہ افزائی کے لیے تنخواہوں کے علاوہ اضافی رقم دی گئی۔ ایک طرف یہ اقدامات کیے گئے تو دوسری طرف انہی فرنٹ لائن سپاہیوں کو مار پیٹ کرکے حوالات میں بند کیا گیا کہ وہ ناجائز مطالبات کے لیے  احتجاج کر رہے ہیں۔  جائز یا نا جائز کی تعریف بھی ہر شخص کی اپنی ہے۔خدمت گزار اور مفت گزار یعنی پیداواری اورغیر پیداواری خدمات میں  فرق واضح ہونا ضروری ہے۔
     جب  مسائل سے لاپرواہی برتی جائے تو پھر احتجاج بھی ہوتا ہے اور مظاہرین کے خلاف مختلف  ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ماضی میں احتجاج کوبنیادی انسانی حقوق کے نام پر متعارف کروایا گیاکہ جب اپوزیشن کے مفادات کو زک پہنچے تو وہ جمہوری حق کے طور  پر احتجاج بھی کرے ۔ اس دوران میں اگر ملکی املاک کو نقصان پہنچانے میں بدمست ہاتھی کی طرح   کا عمل ہوا تو اسے برداشت بھی کیا گیا۔ لیکن جب کوئی عام انسان اپنے حقوق اور مسائل حل کرنے کے لیے وہی راستہ اختیار کرے تو اسے جمہوری حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دے کر  خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس نظام کے سرپرست  جمہوریت کو آڑ بنا کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔
     سرمایہ داری نظام میں انسانی جان  کی کوئی اہمیت نہیں  ہوتی۔ اس کا مال بھی سرمایہ دار کا حق سمجھا جاتا ہے اور اس کی عزت کی بات صرف اتنی ہے کہ اسے اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا جاتا ہے جبکہ زندگی میں اس کی جان،مال،عزت اور احترام کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں بنایا جاتا۔ اشرافیہ کے ناک پر N95ماسک سجا ہو اور فرنٹ لائن سپاہی سادہ سے ٹشو پیپر سے بنے ہوئے ماسک سے خدمت کریں تاکہ سرمایہ کی حفاظت ممکن ہو سکے۔ ایک سپاہی مرے گا تو دوسرا مورچہ سنبھالنے کے لیے تیار ہے اس نظام میں سپاہیوں کو تیار کیا جاتا ہے لیکن زندگیوں کو بچانے کی خاطر کوئی نظام نہیں ترتیب دیا جاتا۔ کیوں  کہ ان  فرنٹ لائن سپاہیوں کا تعلق  طبقہ عوام سے  ہے۔ فرنٹ لائن سپاہی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے آخرت میں کامیابی حاصل ہونے کی خوشی میں اپنے اہل وعیال کو ظالمانہ نظام کے حوالے کر کے رخصت ہوئے جارہے ہیں۔
    ان فرنٹ لائن سپاہیوں میں سیکورٹی فورسز بھی شامل ہیں جنہیں ملک کی حفاظت کے نام پر قربان کیا جاتا ہے لیکن امن و امان کے قیام کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں بنائی جاتی اور نہ ہی انتشار کو ختم کرنے کا کوئی لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔  روڈ پر سپاہی  کن مسائل کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ معاشرے میں میں نظم وضبط کی صحیح تربیت کا نہ ہونا ہے مطلب فرنٹ لائن سپاہی تو بنائے جا رہے ہیں لیکن ان کی قربانیوں کے ثمرات عام عوام تک نہیں پہنچ رہے۔
    اگر یہ سپاہ ان معاشرتی  مقاصد کی بنیاد پر سوچنے لگے تو شاید منزل کی راہ آسان ہو جائے وگرنہ قربانی ہوتی رہے گی۔ معاشرے  میں ترقی صرف اشرافیہ کے حصے میں آتی رہے گی اور مخلوق خدا آخرت کی حسنہ کے انتظار میں دنیا کی حسنہ کو نظرانداز کرکے اپنی جان،مال،عزت و آبرو ان ظالموں کے رحم کرم پر نثار کرتی رہے گی۔وبا کی موجودگی میں  پوری انتظامی  مشینری کو اعزازات واعزازیے حاصل ہوئےکچھ نے تو لاکھ کی جگہ کروڑ اور کروڑ کی جگہ اربوں کمائے۔ اس بیماری سے لڑنے اور خدمت کے عوض سب کو اس کی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوا۔کچھ نے حقیقی معنوں میں  خدمات سر انجام دیں اور اس  کے ثمرات  سے مستفید ہوئے جو قابل تعرض نہیں ۔جو خدمت کرے اس کو صلہ ملنا چاہیے ۔ 
    اس سارے دورانیہ میں جو سب سے زیادہ نقصان کا حصہ دار بنی وہ ہے عوام۔ عوام کسی بھی ملک کے اس کھیل میں نقصان صرف عام عوام کا ہوتاہے۔ایس او پیز کے نام پر ذلالت،امداد کے نام پر بھیک،حفاظت کی آڑ میں خوف احترام کے نام پر بے عزتی، یکجہتی کے نام پر سماجی دوری وہ کونسے نقصانات ہیں جو اس عوام کے حصے میں نہیں آئے،لیکن اتنی بڑی قربانی کے عوض جس عنوان سے پکارا گیا وہ تھا"جاہل عوام"۔عوام کو جاہل کہنے والے بھی عوام ہی تھے بس طبقات کا فرق تھا۔ 
    فرنٹ لائن پر سب سے بڑی قربانی اس عوام کی ہے۔صحت کی اشرافیہ سے لے کر ، مذہبی اشرافیہ  ، سرمایہ دار اشرافیہ ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ضرور ملا ، لیکن عوام کے حصے میں سیاسی غلامی،معاشی کمزوری اور سماجی گراوٹ آئی ۔ایسا کیوں ہوا؟اس کے لیے سرمایہ داری نظام کی حقیقت  کو سمجھنا ضروری ہے۔ جس میں انسان کی  زندگی صرف ایک حیوان کی سی ہوتی ہے جس کو باندھ کر چارہ دے کر دودھ یا گوشت حاصل کیا جاتا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اپنے حقوق کا شعور حاصل کیا جائے اور اپنی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کی جائے۔ جن کو سروں کا تاج بنا رکھا ہے کیا وہ اس عزت و توقیر کےلائق ہیں؟
    Share via Whatsapp