استقامت
بڑی کامیابی کے لئے استقامت اور مصمم کوشش
استقامت
تحریر : عبدالمنان، ٹوبہ ٹیک سنگھ
جو یقین کی راہ پہ چل پڑے انہیں منزلوں نےپناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بہک گئے
عدم استقامت ایک ایسا مرض ( انسانی مزاج کی کمزوری ) ہے جو ناکامی کو نا امیدی کی طرف لے جاتا ہے ۔
ایک مفکر کا قول ہے : لوگوں میں طاقت کی اتنی کمی نہیں ہےجتنی مستقل مزاجی اور مصمم ( مضبوط ) ارادے کی کمی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں میں صلاحیت تو موجود ہوتی ہے لیکن وہ اس صلاحیت سے فائدہ اس لیے نہیں اٹھا پاتے کیونکہ ان میں مستقل محنت کی عادت نہیں ہوتی اور وہ عدم استقامت کی وجہ سے بعض اوقات ناکام ہوجاتے ہیں ۔
" عدم استقامت کا نقصان "
عدم استقامت رکھنے والے لوگ جوکاروبار یا نوکری شروع کرتے ہیں اس سے بہت جلدی اکتا جاتے ہیں کیونکہ وہ تھوڑے سے وقت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں مگر وہ کامیابی کو چھو نہیں پاتے ۔ کسی بھی کام کی کامیابی کے لیے ایک مخصوص وقت درکار ہوتا ہے اس وقت کے پورا ہونے سے پہلے کامیابی مشکل ہوتی ہے ۔ چھلانگ لگا کر منزل تک پہنچنا ناممکن چیز ہے ۔ صبر و استقامت کے حامل ، مستقل مزاج لوگ ہی کامیابی حاصل کرپاتے ہیں ۔
" استقامت کامیابی کی کلید "
مستقل کامیابی کےلیے استقامت کا دامن پکڑنا ہی پڑتا ہے ۔ راتوں رات حاصل کی گئی کامیابی کا عرصہ دراز تک رہنا ناممکن چیز ہے ۔ ہم عام زندگی کی مثال لیتے ہیں .
شاہ بلوط ( اوک کا پہاڑی ) درخت سو سال میں تیار ہوتا ہے جبکہ ایک ککڑی کی بیل جمانے کو صرف چھ مہینے ہی کافی ہوتے ہیں ۔ شاہ بلوط جس کی تیاری کو لمبا عرصہ درکار ہے اس کا سایہ بھی کئی صدیوں تک رہتا ہے جبکہ ککڑی کی بیل چند دن اور ہفتوں کے بعد ناکام ہوجاتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ فی الفور نتائج نکالنے پر جو ہستی قادر ہے وہ اللہ تعالٰی کی ہے۔ جو صرف کن ( ہو جا ) کہتا ہے اور کام ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ نے انسان کو سمجھانے کے لیے کہ بڑی کامیابی کےلیے بڑا وقت درکار ہوتا ہے " زمین اور آسمان چھ دن میں پیدا کیے " ۔
چھ دن کی زمین وآسمان کی پیدائش میں یہ راز چھپا ہے کہ بڑے کام کے لیے محنت اور استقامت اختیار کرنی پڑتی ہے .
" قرآن کریم میں اِستقامت کا ذکر "
اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ نے قران کریم میں اِستقامت کا ذِکر اس انداز میں فرمایا ہے :
إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ استَقَامُوا فَلَا خَوفٌ عَلَیہِم وَلَا ھُم یَحزَنُونَ
بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر ( اس نظریے پر ) مضبوطی سے قائم رہے تو ان لوگوں کو ( دُنیا میں ) کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی ( آخرت میں ) اُنہیں کوئی غم ہو گا .
" استقامت کا نتیجہ "
ہمیں اس بات پر عمل پیرا ہونا چاہیے کہ کامیابی کے لیے لگاتار محنت کی ضرورت ہوتی ہے ، آئے دن قبلہ بدلتے رہنے سے خدا نہیں ملتا ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں استقامت پر کاربند فرما دے ۔
آمین یا رب العالمین