کرونا وائرس کا خوف اور سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کرونا وائرس کا خوف اور سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات

    آج کا دور نظاموں کی جنگ کا دور ہے۔ مذہب اور تہذیب کی جنگوں کا دور ختم ہو چکا۔ کیپٹلزم اور سوشلزم معاشی نظامہاے دنیا پر مسلط ہیں۔کروناوائرس سے سرمایہ

    By محمد نواز خاں Published on May 03, 2020 Views 2892

    کرونا وائرس کا خوف  اور سرمایہ دارانہ نظام  کے مفادات

    انجینئر محمد نواز خاں۔لاہور

     

    آج کا دور نظاموں کی جنگ کا دور ہے۔ مذاہب کی جنگوں کا دور کب کا ختم ہو چکا۔اس وقت کیپٹلزم اور سوشلزم کا دنیا میں مقابلہ چل رہاہے۔ دونوں نظاموں کا بنیادی فلسفہ مادیت پر مبنی ہے۔آج دنیا میں زیادہ سے زیادہ وسائل اور منافع کے حصول کی کوشش کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کواپنا ایندھن بنا چکی ہے اور یہ ہوس ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ وسائل پر قبضے کی اسی ہوس نے پہلی جنگ عظیم میں ایک کروڑ انسانوں کو لقمہ اجل بنایا   اورتقریبا ًدو کروڑ نفوس اس جنگ میں مجروح ہوئے۔ اسی جنگ سے ہی انفلوئنزا  نامی بیماری کا آغاز ہوا جس سے مزید ایک کروڑ انسان اپنی جان کی بازی ہار بیٹھے۔یہی حال جنگ عظیم دوم کا ہے کہ جس میں کم و بیش دو کروڑ انسان سرمایہ پرستوں کی عالمی کشمکش میں لقمہ اجل بنے۔

    آج دنیا میں کیپٹلزم کا نمائندہ امریکہ ہے تو سوشلزم کا چین۔زیادہ سے زیادہ دنیا کو اپنے بلاک کا حصہ بنانا اور زیادہ سے زیادہ وسائل کا حصول اور سپر پاور(Superpower)   کے زعم نے آج دنیا کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دنیا کے تقریبا سات ارب  انسان ڈر ،خوف، نفسیاتی دباؤ اورذہنی کشمکش کا شکار ہیں۔ امریکہ و یورپ نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایشیا و افریقہ کے ممالک پر جنگیں مسلط کر کے ان کے وسائل کو اپنے قبضے میں لیا،  جیسا کہ عراق، لیبیا، افغانستان، شام وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ کمزور ممالک کے وسائل کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے لوٹنے کا ایک منظم طریقہ کار بنایا۔نتیجہ یہ ہے آج دنیا کی کل دولت کا 40 فیصد صرف دنیا کے 1 فیصد لوگوں کے پاس ہے او ر مجموعی طور پر40  فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔

    سوشلزم جو کہ کیپٹلزم کے ردعمل میں مارکسزم کی اساس پر پیدا ہوا اس نے  بھی دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو متأثر کیا۔ روس اس کا مرکز بنا اور دنیا یک قطبی (Unipolar) سے دو قطبی(Bipolar)مراکز میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں نظاموں کے نمائندہ ملکوں میں سرد جنگ کا آغاز ہوا جو بالآخر نام نہاد افغان جہاد اور روس کی وسط ایشیائی ریاستوں (Central Asian States)کے علیحدہ ہونے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد سوشلزم کی نمائندگی چین کے حصہ میں آئی اور چین نے جنگوں کے بجائے معاشی ترقی کے ذریعے سپر پاور بننے کی حکمت عملی اپنائی۔ ملک کے اندر مختلف انڈسٹریل زونز بنائے۔ ان زونز کو مائیکرو  بزنس (Micro Business)،سمال بزنس  (Small Business) اور لارج بزنس (Large Business)میں تقسیم کیا اور دنیا کی منڈیوں پر اپنا اثرثابت کیا۔ چین کی اوسطا ًسالانہ شرح نمو 7 فیصد ہے۔آج دنیا کی کل دولت (GDP) کا 19.72 فیصد حصہ چین پیدا کرتا ہے جو 2024 تک 22 فیصد تک کا ہدف طے کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے آج امریکی سامراج چین کو اپنی عالمی بالادستی کے لیے سخت ترین خطرہ سمجھتا ہے۔

    چین نے جنگوں اور ملکوں کے وسائل پر قبضہ کے بجائے غریب ملکوں کے ساتھ صنعتی معاہدات اور تجارت کے ذریعے ان ملکوں کو اپنے ساتھ جوڑا۔ اپنے ملک کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کے انفرا سٹرکچر کو بھی بہتر کیا اور ان کو بھی ترقی کی دوڑمیں شامل کیا جس سے امریکی سامراج کی ان ملکوں پر گرفت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ روس کااپنےقومی نظام کو مضبوط کرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا اور ایک نئے وژن کے ساتھ دنیا میں اپنے  ایک مؤثر کردار سے امریکہ کو مزید کمزور کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روس کا اپنا وزن چین کے بلاک میں ڈالنے اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)کے ذریعے ایشیا کے اہم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے نے بھی امریکہ کے دکھوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین کی اس تیز رفتار ترقی سے نہ صرف پریشان ہے بلکہ اس کو روکنے کے  لیے  ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔کبھی چین کی موبائل کمیونیکیشن کمپنیوں کے لیے گوگل کے اینڈرائیڈ سسٹم (Android System)کی سروسز کو ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے تو کبھی چین کی کمپنیوں پر براہ راست پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔چین جیسے معاشی، سیاسی اور عسکری طور پر مضبوط ملک کے ساتھ براہ راست جنگ کا امریکہ نہ متحمل ہو سکتا ہے نہ چین  کی مضبوط سفارتکاری اس کو اس کی اجازت دے سکتی ہے۔ اس لیے آج وائرس ( کرونا نامی) کو ایک بیالوجیکل ہتھیار (Biological Weapon)کے طور پر  استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ کی تاریخ ہے کہ اس طرح کے کئی تجربات افریقہ پروہ اس سے پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اس وائرس کی وجہ سے چین کے صوبے ہوبے کہ جس کے ایک شہر ووہان سے یہ مرض پھیلا، وہ چین کے ان 19 صوبوں میں سے ایک اہم مرکز ہے جو چین کی کل صنعتی پیداوار کا 90 فیصد پیدا کرتے ہیں  اورچین کے 50 فیصد سے زیادہ ورکرز ان صوبوں میں کام کرتے ہیں۔ مختلف قومی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے 49000 سے زیادہ دفاتر ان صوبوں میں ہیں۔

    آج یہ بحث کی جارہی  ہےکہ یہ وائرس امریکہ اور برطانیہ کی لیبارٹریز میں بنایا گیا اور  امریکی فوجیوں کی چین میں فوجی مشقوں یا کھلاڑیوں کے ذریعے چین منتقل کیا گیا۔عبداللہ حسین ہارون جو کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفارتکار رہ چکے ہیں اس پر تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔  پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے  بھی اپنے ایک انٹرویو  میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ  یہ ممکنات میں سے ہے کہ یہ وائرس لیبارٹریز میں بنایا گیا ہو اور اس کو چین کے خلاف ایک بیالوجیکل ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہو لیکن ابھی تک اس کے ثبوت سامنے نہیں آئے۔ بہر حال اس پر تحقیقات جاری ہیں جبکہ  چین ، روس اور ایران کے سائنسدان اور حکومتیں مسلسل اسے امریکی حملہ قرار دے رہی ہیں۔

     اس وائرس نے چین کی صنعتی پیداوار اور دنیا میں ان پروڈکٹس کی ترسیل کو بری طرح متأثر کیا ہے۔چین کی سال کے پہلے کوارٹر (1st Quarter) میں شرح نمو 5فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے اور اشاریے یہی بتا رہے ہیں کہ اس سال کے آئندہ کوارٹر (2nd Quarter) میں بھی شرح نمو کم  رہے گی لیکن چین  نے جس بھرپور انداز  ، ڈسپلن اور حکمت عملی سے اس وائرس کا مقابلہ کیا ہے اور اس کو شکست دی ہے وہ بہرحال دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہےاور آج چین دنیا کے دیگر ممالک کو اس وباء سے نکالنے میں معاونت فراہم کررہا ہے۔

    جہاں تک سرمایہ داری نظام کا تعلق ہے تو سرمایہ دار کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ کو ئی قوم اور نہ کوئی علاقہ، سرمایہ اس کا دین ،ایمان ،مذہب، قوم اور ملک بلکہ سب کچھ  ہوتا ہے۔ سرمائے  کی  مسلسل بڑھوتری  اس کا ہدف ہوتا ہے۔ انڈسٹریل ازم  (Industrialism)نے جہاں  پیداوار میں تیزی سے اضافہ کیا وہیں کوئی انسانی مفاد عامہ کا اصول اور ضابطہ پیش نظر نہ رکھنے  کی وجہ سے ہوا ، پانی، زمین اور ماحول، اور آبی و فضائی مخلوقات کر  کو بری طرح متأثر کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بیماریوں کے خلاف  مدافعتی نظام (Immunity System)کو بھی تہس نہس کر دیاہے۔انسانی مدافعتی نظام  کےکمزور ہونے کی وجہ سے ان سرمایہ دار کمپنیوں کی تیار کردہ اینٹی بائیو ٹکس(Anti-biotic) کے نام پر انسانوں کی جیبوں سے سرمائے کی منتقلی کا عمل زوروشور سے جاری ہے ۔

     آج تو فارما سوٹیکل انڈسٹری سب سے بڑی اور منافع بخش انڈسٹری بن  چکی ہے۔ پہلے بیماریوں کی تشخیص کے لیے ٹیسٹنگ کٹس فروخت کی جاتی ہیں پھر ویکسین اور ادویات فروخت کی جاتی ہیں ۔اس پس منظر میں آج کا  یہ وائرس بھی اسی بزنس کی بڑھوتری کے لیے ایک سازش دکھائی دیتاہے۔یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے سربراہان اور ڈاکٹرز جو گائیڈ لائینز اور پالیسیاں بناتے ہیں وہ دراصل انہی ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل انڈسٹریز کے مراعات یافتہ ہوتے ہیں اور کنسلٹینسی اور لیکچرز کے نام پر ان کمپنیوں سے بھاری معاوضےبھی  وصول کرتے رہتے ہیں۔  جیسا  کہ امریکی میگزین  دی گارڈین (The Guardian) کی رپورٹ ہے کہ جب سوائن فلو (Swine Flu)کی وبا  پھوٹی توعالمی اداہ صحت (WHO)کے ڈاکٹر ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسا کہ Roche Pharma ،   Glascosmithkline,   (GSK)   وغیرہ کے پے رول(Pay Role) پر تھے اور انہی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین اور ادویات  پھر اس بیماری کے لیے تجویز کی گئیں۔ہوتا یہ ہے کہ انہی ڈاکٹروں کے ذریعے ریسرچ پیپرز کے نام پر مخصوص اہداف کے لیے ریسرچ لکھوائی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں  یہی کمپنیاں  حکومتوں کو ادویات فراہم کرتی ہیں اور پرائیویٹ بزنس میں اجارہ داری قائم کرتی ہیں۔حالیہ دنوں میں امریکہ کے 2 ٹریلین ڈالر کا بیل آوٹ پیکیج(Bailout Package)  بھی اس بات کی غمازی کرتا ہےکہ لوگوں پر براہ راست خرچ کرنے کے بجائے اس پیکیج  کا بیشتر حصہ اسی طرح کی  کمپنوں کے اکاؤنٹ میں جائے گااور امریکی الیکشن میں ان کمپنیوں سے انویسٹمنٹ کو سود سمیت واپس لیا جائے گا ۔ اسی طرح پاکستان کا 8  ارب ڈالر  کے ریلیف پیکیج میں  سے بھی اکثر حصہ انہی کمپنیوں کو  ٹیسٹنگ کٹس ، میڈیکل سازوسامان اور  ادویات وغیرہ کی مد میں ملے گا۔

    آج دنیا  بھرمیں کرونا وائرس کے نام پر ڈر اور خوف کا یہ کھیل بھی مستقبل میں انہی عالمی کمپنیوں کی ویکسینز اور ادویات کی  خریدوفروخت کا باعث بنے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ  اس بیماری  سے بچنے  کے لیے عالمی ادارہ صحت کی پالیسیوں اور گائیڈ لائنز کے تناظر میں تمام ممالک کے بجٹ کا خاص حصہ مستقل طور پر ان کمپنیوں کو دیاجائے گا۔ ایک ہندوستانی معالج، ڈاکٹر  امرسنگھ آزاد کا ایک انٹرویو اس حوالے سےنہایت اہم اور سننے کے قابل ہے کہ کس طرح  عالمی ادارہ صحت کے سربراہان اور ڈاکٹرز بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے کے بجائے  ان ملٹی نیشنل فارما سوٹیکل کمپنیز کی انٹی بائیوٹک ادویات اور ویکسین  کو تجویز کر کے دنیا کی دولت لوٹنے میں ان کمپنیوں کی مدد کرتے ہیں۔

    سرمایہ دارانہ نظاموں میں انسان کی حیثیت ایک پروڈکٹ کی ہے جو سرمائے کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔  ان سرمایہ دارانہ نظاموں میں اسی مقصد کے پیش نظر خاندانی نظام کوبھی تباہ کیا گیااور اسے محض  جنسی تسکین کی حد تک محدود کر دیا گیا  تاکہ تمام افراد معاشرہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت  ،خاندانی نظام کی صورت میں کوئی ذمہ داری لینے کے بجائے اپنا  تمام تر وقت  سرمایہ دار کے سرمائےکو بڑھانے میں لگائیں ۔اس اعتبار سے جب ایک فرد اپنی پوری زندگی اس نظام کے لیے خرچ کر کے بوڑھا ہو جاتا ہے تو سسٹم کو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک مخصوص بجٹ ان پر خرچ کرنا پڑتاہےاسی لیے  آج مغربی  کیپٹلسٹ معاشرے ان  عمر رسیدہ اور ضعیف لوگوں کو اپنے نظاموں پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔  حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وائرس کا شکار بھی یہی عمر رسید ہ اور ضعیف لوگ ہیں (کہ جس پر میڈیا میں ایک واویلا  بھی ہے) تو یہاں بھی  خدشہ یہی ہے کہ کہیں عمر رسیدہ افراد کی اموات کے ذریعے مالی بوجھ میں کمی تو مقصود نہیں ہے۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد  جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور  اس کے کچھ ذیلی ادارے بنائے گئے جیسا کہ ورلڈ بینک (World Bank)  اور آئی ایم ایف(IMF) جس کا مقصد یہ طے کیا گیا کہ یہ ادارے معاشی طور پر کمزور ممالک کو مالی مدد فراہم کریں گے تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے برابر آسکیں لیکن حقیقت میں ان اداروں کا کردار کمزور معیشت رکھنے  والے ممالک پر ان طاقتور سرمایہ دار ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیز  کی غلامی مسلط کرنا رہا ہے۔ امداد کے نام پر ان ممالک کو  من مانی شرائط پر قرض دیے جاتے ہیں اور سود میں ایسا جکڑا جاتا ہے کہ جو ایک دفعہ اس چنگل میں پھنس  گیا وہ اس سے کبھی نہ نکل سکا۔ ایڈوائزرز(Advisors) اور کنسلٹنٹ (Consultant)کے نام سے ایک الگ فوج ظفر موج  ان ممالک کے اہم مالیاتی اداروں پرمسلط کی جاتی ہے ۔جوان ممالک کی غلامی کی رات کو مزید طول دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔اسی طرح  مطیع ممالک کے بجٹ ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مرضی سے بنتے ہیں اور ٹیکسز کا نفاذ بھی ان کی شرائط کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ پاکستان میں وزیر خزانہ ، گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف ۔بی آر  کے عہدوں پر ایسے لوگوں کا تقرر کیا جاتاہے جو ان بین الاقوامی مالیاتی  اداروں کے ملازمین یا ایڈوائزری رول پرہوتے  ہیں۔

    سرمایہ دارانہ نظام کا  بنیادی اصول ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ ہر چند سال کے بعد ایسی صورتحال پیدا کی جاتی ہے کہ بحران پیدا ہوں  جس کے نتیجہ میں چھوٹا سرمایہ کار اور  چھوٹی قومی صنعتیں  تباہ ہو جاتی ہیں۔چھوٹی کمپنیاں دیوالیہ ہو جاتی ہیں اور بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی باقی رہتی ہیں۔ آج کرونا وائرس کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا میں لاک ڈاؤن اور خاص طور پر  پاکستان جیسے ممالک میں لاک ڈاون کے بعد   چھوٹی انڈسٹری اور صنعتیں  تباہ ہو جائیں گی اور مزدور بے روز گار ہو جائیں گے ۔ بڑے مگر مچھ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پنجے مزید مضبوط ہو جائیں گے اور  مارکیٹ پر اجارہ داری بڑھ جائے گی۔اسی طرح ان کمزور ممالک کی معیشتوں کو لاک ڈاؤن  اور بحرانوں کا شکار کرتے ہوئے ان کو مزید قرضوں کی پیشکش کر کے ان کو مزید چنگل میں پھنسایا جائے گا۔جیسا کہ ایران  اور کیوبا جیسے ممالک بھی جو گزشتہ کئی  دہائیوں سے خود انحصاری  کی پالیسی اپنا کر اپنی ضرورتیں پوری کر رہےتھے اس کرونا وبا کا شکار ہو کر آئی ایم ایف سے قرض مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    یاد رکھئے کہ خوف  اور ڈر نہ صرف انسانوں کی خداداد صلاحیتوں کو  مار دیتا ہے بلکہ  پست ہمت اور بزدل بنا دیتا ہے۔  اس وائرس کو ایک بہت بڑی بلا بنا کر جس طرح ایک ایجنڈے کے تحت عالمی میڈیا اور مقامی میڈیا کے ذریعے ہوا بنایا گیا ہے اس سے بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام کمزور ہوکر رہ گیا ہے اور نفسیاتی دباؤ بڑھ گیا ہےاور پھر جس طرح اس وائرس کے پھیلاؤکے میکانزم کو پیش کیا گیا ہے اس سے جس شخص کو یہ بیماری لگ جائے اس کو اچھوت سمجھا جانے لگا ہے ۔ ہمارے جیسے معاشروں میں بھی جہاں ابھی کسی درجے میں سماجی رشتے مضبوط ہیں ،یہاں بھی   ان لوگوں کو جس انداز سے  ٹریٹ کیا گیا ہے وہ سماج کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی  ویڈیوز  وائرل ہوئی ہیں جس میں لوگ گرے پڑے ہیں اور کوئی ان کو ہاتھ تک نہیں لگا رہا، کوئی پاس نہیں جا رہا یہاں تک کہ ایمرجنسی ریسکیو کے اداروں کے کارکنان قریب جانے سے ڈر رہے ہیں  حالانکہ اس بیماری سے شرح اموات 3 فیصد کے قریب ہے اور اس میں بھی وہ لوگ شامل ہیں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہے یا عمر رسیدہ ہیں۔اس صورتحال میں تو بیماری کا شکار لوگ نہ صرف اپنے خاندان اور عزیزو اقارب سے متنفر ہوں گے بلکہ سماجی رشتوں میں مزید دوریاں آئیں گی، اجتماعی نظام ٹوٹے گا اور انفرادیت کا زہر مزید پھیلے گا اور یوں اس کا فائدہ اٹھا کر عالمی اداروں کا ایجنڈا کامیابی سے آگے بڑھے گا۔

    پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک میں لاک ڈاؤن کر کے  ( اپنےتئیں بیماری کو کنٹرول کرنے کا)ایک ہدف تومعلوم نہیں حاصل ہویانہ ہو لیکن اس سے جو ایک اور انسانی المیہ جنم لے گا اس پاٹ کو بھرنے میں ایک وقت لگے گا۔ بھوک و افلاس  کا شکار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حکومت لاک ڈاؤن کے ہفتوں گزرنے کے باوجود ابھی تک محض ٹاسک فورس اور حکمت عملی بنا رہی ہے اور یہ بھوک و افلاس کے شکار خاندان فلاحی اداروں کے  رحم و کرم پر ہیں۔ پرائیویٹ ملز، فیکٹریاں ، کارخانے مزدوروں کو  تنخواہ  نہیں دیں گے جس سے ان خاندانوں کا معاشی سرکل مزید تباہ ہو جائے گا۔

    بات یہ ہے کہ آج کے یہ انسانی المیے اس لیے جنم لے رہے ہیں کہ جو معاشی نظام دنیا میں موجود ہیں  ان کی اساس مادیت ہے ۔ انسان کی اہمیت ان نظاموں میں  سرمائے سے کم ہے۔ آج اسلام کے ماننے والے ممالک میں بھی یا تو کیپٹلزم  ہے یا سوشلزم اور اسلام کو ایک مکمل نظام حیات ماننے والے ان نامکمل اور انسان دشمن نظاموں کے تحت ہی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ جب اس موضوع پر بات کی جاتی ہے تو کہتے ہیں اسلام کا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ اگر ایک دین میں انسان کے ایک انتہائی اہم پہلو کے حوالےسے کوئی نظام نہیں تو وہ کامل کیسے ہو گیا؟ اگر زیادہ دوڑ بھی لگائیں تو سرمایہ دارانہ نظام کی چند اصطلاحات کے نام بدل کر اس کو اسلامی معاشی نظام بنا دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک دین کے نظام میں معاشی نظام نہیں تو کیسے 1200 سال تک ایک نظام قائم رہا اور انسانی  مادی و روحانی ضرورتوں کو بطریق احسن پورا کرتا رہا۔

     آج ضرورت اس بات کی  ہے کہ ہم اسلام کا بطور سسٹم مطالعہ  کریں،  اسلام کے معاشی ،سیاسی اور سماجی نظام کو سمجھیں ۔اس لیے دین کی انسان دوست فکر کی اساس پر ایک آزاد نظام کا قیام ہی آج کے دور میں انسانی مسائل کے حل کی واحد صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم اجتماعی تقاضے کو سمجھ کر اس کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

     

    Share via Whatsapp