عدل اور ظلم سماجی تناظر میں
کسی بھی سماج کی تشکیل میں اہم اور کلیدی کردار فکروفلسفہ ،معیشت اور سیاست کا ہوتا ہے۔اگر ان کی بنیادعدل پر ہو تو پورا سماج انسانی ترقی کرے گا سم
ظلم اور عدل سماجی تناظر میں
تحریر: ساجد اقبال۔ مردان
ظلم اور عدل کی اصطلاحات وسیع معانی میں استعمال ہوتی ہیں۔ان کی جامع تعریف کچھ اس طرح بیان کی جاسکتی ہے.
ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کا جو اصل مقام اور محل ہو اسے اس سے محروم کرنا. اسی بنا پرقرآن مجید نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا. کیوں کہ عبادت کاحق فقط اللہ کی ذات کو حاصل ہے بندہ جب وہ حق یا مقام خالق کے بجائے کسی مخلوق کو دے رہا ہوتا ہے تو وہ ظلم عظیم کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
اسی طرح عدل کی تعریف ہوگی کہ کسی چیز کا جو اصل محل یا مقام ہو وہ اسے دینا ۔امام شاولی اللہ رح عدالت کی تعریف میں فرماتے ہیں
"عدالت ایک ملکہ کا نام ہے جس سے ایسے اعمال و افعال صادر ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے ملکی وقومی انتظام باآسانی قیام پذیر ہوتے ہیں".
سماج سے مراد انسانوں کا وہ اجتماع ہے جہاں وہ حقوق وفراٸض کے حوالے سے برابری کی سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔
سماج کے تین اہم پہلو ہیں۔فکروفلسفہ،معیشت اور سیاست.
١۔فکروفلسفہ: سماج کی تشکیل میں فکروفلسفہ کا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے۔جس سے قوم کو پہچانا جاتا ہے۔
٢۔معیشت۔: سماج کا دوسرا اہم ستون معیشت ہے۔جسے سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس پر سارے معاشرے کی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔
٣۔سیاست۔: سماج کا تیسرا اہم ستون سیاست ہے۔کسی بھی سماج کے نظام کو چلانے کے لیے ایک مرکزی نظام ہوتا ہے۔یہ معاشرے کے سارے شعبوں کی نگرانی اور اسے کنٹرول کرتا ہے۔
اب ہم سماج کے ان تین بنیادی پہلوؤں کا عدل و ظلم کے اعتبار سے جائزہ لیں گے
* فکروفلسفہ میں عدل اور ظلم.
فکروفلسفہ میں عدل۔: کسی سماج کی تشکیل اجتماعیت اور وحدت انسانیت پر ہے تو یہ فکروفلسفہ میں عدل ہے .
سماجی اثرات۔:اگر سماج کے فکروفلسفہ میں عدل ہو تو وہاں رواداری، بھاٸی چارہ، ہمدردی , انسان دوستی اور انفرادیت کے بجاٸے اجتماعی سوچ پیدا ہوتی ہے جبکہ ذاتی غرض، مفاد پرستی اور استحصالی فکر کا انسداد ہوتا ہے۔اور پورا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے.
فکروفلسفہ میں ظلم: ۔ کسی سماج کی تشکیل طبقاتیت, گروہیت،انفرادیت،اور استحصالی سوچ پر مبنی ہو تو یہ فکروفلسفہ میں ظلم کہلاتا ہے۔
سماجی اثرات: ۔اگر کسی سماج کے فکروفلسفہ میں ظلم پسندی ہو تو وہاں طبقات،فرقہ واریت اور انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ جب سماج طبقات میں بٹ کر ٹوٹ پھوٹ اور غربت افلاس کی وجہ سے اعلی اخلاق کھو بیھٹے تو انسان کی فطری ترقی رک جاتی ہے۔
* معیشت میں عدل اور ظلم۔۔
معیشت میں عدل۔: کسی سماج میں معیشت عادلانہ اصولوں پر مبنی ہو ۔معاشی تقسیم منصفانہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں کا حق تمام انسانوں کو حاصل ہو۔جاگیرداری اور سرمایہ داری سوچ کا خاتمہ ہو، احتکار اور اکتناز کی ممانعت ہو، ہر انسان کو اس کی محنت کی اجرت پوری ملتی ہو تو یہ معیشت میں عدل کہلاتا ہے ۔
سماجی اثرات:۔اگر کسی سماج کی معیشت میں عدل ہو تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں تعاون باہمی، انسان دوستی اور معاشی خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے.
معیشت میں ظلم۔: کسی سماج کی تقسیم طبقات میں ہو ، ایک طبقہ غریب سے غریب تر اور دوسرا طبقہ امیر سے امیر تر ہوجائے .غریب طبقہ قرضوں اور معاشی تنگی میں مبتلا اور امیر تعیش کی زندگی میں مگھن رہتا ہو۔ ایک طبقہ ملکی وسائل پر قابض ہواور دوسرا نان جویں کے لیے محتاج ہو. اس طرح ایک طبقہ دولت کی فراوانی اور دوسرا دولت کی کمی کی وجہ سے اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہوجائےتو سماجی حوالے سے معیشت میں یہ ظلم کی علامت بن جاتا ہے۔
سماجی اثرات۔:۔اگر کسی سماج کی معیشت ظلم پر مبنی ہو تو وہاں بھوک, بےروزگاری, بدامنی, فتنہ و فساد،انتشار، اخلاقی گراوٹ زناکاری،دھوکہ دہی،رشوت ،سود اور ذخیرہ اندوزی ایسے جرائم پیدا ہوجاتے ہیں معاشرے میں فرقہ واریت جنم لیتی ہے جس سے باہمی نفرت کو ہوا ملتی ہے اور اسی طرح پورے سماج کی ترقی رک جاتی ہے۔
*سیاست میں عدل اور ظلم۔
سیاست میں عدل:۔کسی سماج کا سیاسی نظام صالح فکر،جمہوریت اور اجتماعیت کی بھلاٸی کے نظریہ پر قائم ہو تو یہ عدل کہلاتا ہے۔
سماجی اثرات۔:اگر کسی سماج کی سیاست میں عدل ہو تو وہاں راٸے کی آزادی،سیاسی مساوات اور قومی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔سیاسی پالیسی قومی سوچ پر مبنی ہوتی ہے۔پورے قوم کو وحدت میں پرو دیا جاتا ہے جس سے پورے سماج میں امن قائم ہوتاہے ۔
سیاست میں ظلم: ۔اسی طرح کسی سماج کا سیاسی نظام مفاد پرستی اورعوام کے مرضی کے بغیر جبر وتشدد پر مبنی ہو ،ادارے مشاورت کے بجاٸے شخصی فیصلوں پر قائم ہوں یعنے آمریت ہو تو یہ سیاست میں ظلم کے اعتبار سے پہچانا جاتا ہے۔
سماجی اثرات: ۔اگر کسی سماج کی سیاست ظلم پر مبنی ہو تو اس کا لازمی نتیجہ ملکی خزانے کی لوٹ مار، سامراجی مالیاتی اداروں کی غلامی،بڑے بڑے قومی اداروں کو گروی رکھنا، ملکی اثاثے کی فروخت اور اس کے علاوہ ملکی اندرونی حالات میں سماجی ظلم،دہشت گردی،خانہ جنگی اور بد امنی کی شکل میں ہوتا ہے۔
حاصل کلام :کسی بھی سماج کی تشکیل میں اہم اور کلیدی کردار چوں کہ فکروفلسفہ ،معیشت اور سیاست کا ہے۔اس لیے اگر ان کی بنیادعدل پر قائم ہے تو پورا انسانی سماج ترقی کرتا ہے سماج میں امن اور خوشحالی قائم ہوتی ہے۔اور اگر اس کی بنیاد ظلم پر ہے تو پورا سماج طبقاتی کشمکش ، اور بد اخلاقی اعمال میں مبتلا ہوجاتاہے.
اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی لحاظ سے ظلم اور عدل کا صحیح تعارف حاصل کیا جائے اور عادلانہ سماجی تبدیلی کے لیے باشعور اجتماعی قوت کی تشکیل اور جدوجہد میں شامل ہوکر سماج سے ظلم کا خاتمہ کیا جائے تاکہ انسانیت صحیح سمت میں ارتقائی منازل طے کرسکے.