سیّدالمِلّت حضرت مولانا سیّد محمد میاں دہلویؒ
حضرت مولانا سیّد محمد میاںؒ کی شخصیت تاریخ میں اس حوالے سے نمایاں مقام کی حامل ہے کہ انھوں نے بہ یک وقت علمی اور عملی کام سر انجام دیے ہیں
سیّدالمِلّت حضرت مولانا سیّد محمد میاں دہلویؒ
(22 اکتوبر : یوم وصال)
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
حضرت مولانا سیّد محمد میاںؒ کی شخصیت تاریخ میں اس حوالے سے نمایاں مقام کی حامل ہے کہ انھوں نے بہ یک وقت علمی اور عملی کام سر انجام دیے ہیں۔ سیرت نگاری ہو یا تاریخی موضوعات، سیاسی نقطہ نظر کو معروضی حقائق کے تناظر میں بیان کرکے اس پر عملی جدوجہد ہو، یا دینِ اسلام کے دیگر شعبوں میں تصانیف و تالیفات، غرض یہ کہ ہر اعتبار سے وہ ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ مولانا محمدمیاںؒ کی ولادت سیّد منظور محمدؒ کے گھر 12 رجب 1321ھ /4 اکتوبر 1903ءبمقام محلہ پیرزادگان دیوبند میں ہوئی۔ قرآنِ حکیم کی ابتدائی تعلیم اور فارسی سیکھنے کے بعد انھیں 1916ءمیں دارالعلوم دیوبند میں داخل کروایا گیا، جہاں وہ 1925ءتک زیرتعلیم رہے اور دینی علوم کی تکمیل کی۔ 1926ءمیں مدرسہ حنفیہ شاہ آباد میں تدریس کا آغاز فرمایا، لیکن مدرسے کو انگریز سرکار کی امداد ملنے کی وَجہ سے اُس سے الگ ہوگئے۔ مولاناؒ کی سیاسی زندگی کا آغاز 1926ءمیں جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کلکتہ میں شرکت سے ہوتا ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دیگر اکابرین کے ہمراہ مولاناؒ اس اجلاس میں شریک تھے، جس کے بعد انھوں نے خود فرمایا تھاکہ: ”پہلے میں صرف ایک گوشہ نشین مدرّس تھا اور اب جنگ ِآزادی کا سپاہی بن گیا، جس کو قید و بند اور دار و رسن کے خواب آنے لگے۔“
1929ءمیں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے قائم کردہ مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں مدرس کے طور پر تعینات ہوئے۔ مدرسہ شاہی مراد آباد میں محض تعلیم و تدریس کا کام ہی نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان دنوں زیرِ تعلیم طلبا کی سیاسی تربیت اور ذہن سازی بھی مدرسے کے اغراض و مقاصد میں شامل تھی۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ طلبا میں اساتذہ کے حکم پر اپنی جان قربان کرنے کے جذبات پیدا ہوگئے تھے۔ حضرت مولانا سیّد محمد میاںؒ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ہی کسی نہ کسی انداز سے طلبا کی سیاسی تربیت اور ذہن سازی کرتے رہتے تھے۔ چناں چہ طلبا وطنِ عزیز کی آزادی کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھنے لگے تھے۔
1929ءمیں ہی جمعیت علما امروہہ کے اجلاس میں مولانا محمد میاںؒ کو پہلے نائب ناظم اور پھر ناظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ آزادی کے حصول کے حوالے سے جدوجہد اور ان کی تنظیمی کارکردگی کی بنیاد پر جلد ہی صوبہ آگرہ کے صوبائی ناظم کی حیثیت سے تقرری عمل میں آئی۔ آزادی کی اس جدوجہد میں مولاناؒ کو دیگر اکابرین کی طرح بہت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ 1930ءکے الیکشن مراد آباد میں انگریز پولیس نے مزاحمت کی اور مجمع پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تو مولاناؒ اپنے ساتھیوں کے ساتھ
پا مردی سے جمے رہے۔ اس واقعے میں بہت سے لوگ شدید زخمی بھی ہوئے، جن کی فکر مولاناؒ کو ہمہ وقت لگی رہتی تھی۔
1932ءمیں جب کہ سول نافرمانی کی تحریک زوروں پر تھی، اس موقع پر جمعیت علمائے ہند نے تمام تنظیمی عہدوں کو ختم کرکے ”ڈکٹیٹر شپ“ کا نظام قائم کیا تھا، جس میں ڈکٹیٹر کا کام تمام تنظیمی امور کو سرانجام دینا تھا۔ تمام ڈکٹیٹرز یکے بعد دیگرے ایک بڑے مجمع کے ساتھ سول نافرمانی کرتے ہوئے گرفتاری پیش کرتے اور گرفتاری کے وقت اپنے جانشین ڈکٹیٹر کے نام کا اعلان کرتے۔ مولاناؒ اس کے نوویں ڈکٹیٹر تھے۔ اس حوالے سے بھی مولانا محمدمیاںؒ کی اَن تھک جدوجہد سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس دوران ان کی تمام تر سرگرمیاں مراد آباد اور دہلی میں رہیں۔ ان سرگرمیوں کی پاداش میں 6 ماہ کے لیے مولاناؒ کا دہلی میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ مولانا محمدمیاںؒ نے 1940ءمیں ولی اللّٰہی تحریک ِآزادی سے متعلق ایک مایہ ناز کتاب ”علمائے ہند کا شان دار ماضی“ لکھی تو انگریز سامراج نے اس کی ضبطی اور پابندی لگائی۔ اس موقع پر مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ اور دیگر علمائے حق نے انگریز سرکار کے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی اور اس کتاب کی اہمیت کو واضح کیا۔
مولانا سیّد محمدمیاںؒ 1928ءاور 1944ءکے دوران5 بار گرفتار کیے گئے اور قید بامشقت کی سزا ہوتی رہی۔ اگست 1944ءمیں جب پورے برعظیم میں ”ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک کا آغاز ہوا، اس تحریک میں ولی اللّٰہی کاروان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کے جانشین حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ، مولانا حفظ الرحمن سیو ہارویؒ، مولانا احمدسعید دہلویؒ اور دیگر اکابرین جدوجہد ِآزادی کی پاداش میں قیدو بند کی صعوبتوں سے گزر رہے تھے۔ مولاناؒ اسی قافلہ عزیمت کے ایک سرگرم رکن تھے۔ 1945ءمیں وہ جمعیت علمائے ہند کے ناظم مقرر ہوئے۔ اس ذمہ داری پر بھی انھوں نے بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا اور مسلمانانِ برعظیم کی ترجمانی کرتے رہے۔
1947ءکا دور بہت پُرآشوب دور تھا۔تقسیمِ ہند کے نتیجے میں نفرت کی جو آگ انگریز سامراج نےاس خطے میں لگائی تھی، اس سے ہندوستان کا کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں تھا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی داد رسی کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مولانا محمدمیاںؒ نے پورے ملک کے دورے کیے اور عوام کی ڈھارس بندھائی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار کو بلوائیوں سے بچانے کا سہرا بھی آپؒ ہی کے سر ہے۔ 1949ءمیں سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے دینی تعلیمی مہم کو بھی اپنے پروگرام کا حصہ بنایا اور اس سلسلے میں متعدد مفید رسائل تحریر فرمائے۔ ان کے دورِ نظامت میں عملی سرگرمیوں کے لیے متعدد شعبے قائم کیے گئے، تاکہ معروضی حالات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا جاسکے۔ 1963ءمیں جمعیت علمائے ہند کی نظامت سے دست بردار ہونے کے بعد مولاناؒ مدرسہ امینیہ دہلی میں تاحیات مدرّس کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مولانا سیّد محمدمیاںؒ کا شمار برعظیم کے نام ور مؤرخین میں ہوتا ہے۔ ان کی کئی تصانیف ’حوالہ‘ کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔ اس وَجہ سے ان کا ایک لقب ”مورخِ ملت“ بھی ہے۔ مولاناؒ نے 100 کے قریب کتب تحریر فرمائی ہیں، جن سے آج بھی تشنگانِ علم اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ انھوں نے مراد آباد سے ماہنامہ ”قائد“ کا اجرا بھی فرمایا، جس کا شمار برعظیم کے مشہور مجلات میں کیا جاتا ہے۔ کثرتِ تصنیفات کی وَجہ سے حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ آپ کو مزاحاً ”حیوانِ کاتب “ کہتے تھے۔ مولانا محمد میاںؒ کی وفات 12 شوال 1395ھ / 22 اکتوبر 1975ءکو 74 سال کی عمر میں ہوئی اور وہ دہلی میں آسودہ خواب ہیں۔