پاکستانی نوجوان مغربی افکار کی زد میں
اس تحریر کا مقصد آج کے نوجوانوں کے ذہنوں میں دین اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق پیدا ہونے والی کنفیوژن کو منظر عام پر لانا ہے
پاکستانی نوجوان مغربی افکار کی زد میں
تحریر : محمد اشفاق
میری اس تحریر کا محرک آج ایک دوست سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو ہے جس نے مجھے یہ سوچنے پرمجبور کیا کہ آج کا دور ایک نئے چیلنج سے نبرد آزما ہوا چاہتا ہے۔ ویسے تو میراپچھلے دوسالوں سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سائنس،انگلش اور اردو لٹریچر کے مختلف سٹوڈنٹس سے انٹریکشن ہوتا رہتا ہے۔لیکن اس نوجوان کی گفتگو سے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارا نوجوان یورپ کے مادی افکار سے مرعوب ہوتا جا رہا جس کا نتیجہ یہ ہے، کہ وہ سمجھتا ہےکہ دین اختیار کرناانسان کانجی معاملہ ہے جس کا دل چاہے اختیار کرے۔ اس کا ریاستی نظم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اس پروپیگنڈے کے بھی شکار ہیں کہ دین انسان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہےجس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دین اسلام کے ان بنیادی عقائدونظریات اوران کائنات گیرحقائق پر اعتراضات کرنا شروع کردیتے ہیں جس پر انسانیت اور تمام مذاہب متفق ہیں ،اور اس مادی کائنات کی اربوں اشیاء اور ان کے حقائق سے غافل انسان یہ پوچتا ہےکہ
1۔ خدا کہاں ہے اوراسکے وجود کا ثبوت کیا ہے؟
2۔ جب مخلوق خدا کی خدمت کرنے سے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ہےتو پھر یہ عبادات یعنی کہ نماز و روزہ وغیرہ ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
3۔ فرشتوں پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟
4۔ جنت اور دوزخ کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟
5۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے ؟ جبکہ غیر مسلم اقوام قرآن کی تعلیمات پر عمل کیےبغیر ہی ترقی کر گئی ہیں جس کی مثال چائینہ روس و امریکہ وغیرہ ہیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جوان کے نام نہاد جدت پسند اور خواہشات پرست مفکرین نے ان ذہنوں میں پیدا کردئے ہیں۔تو دوسری طرف جب وہ ہمارے مذہبی راہنماوں سے اس کا جواب مانگتے ہیں تو وہ ان کے ذہنی پس منظر کو سمجھے اور ان کو عقلی طور پرمطمئن کئےبغیر لگے بندھے انداز میں فن خطابت کا رعب جھاڑتے ہوئے، دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں کہ جن پر یہ نوجوان پہلے سے بھی زیادہ شبہات کے شکارہوجاتے ہیں، یا پھر ڈانٹ پلا کر چپ کروا دیتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ نہ صرف دین اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ بعض اوقات اسلامی احکامات کا تمسخربھی اڑاتے ہوئے نظرآتے ہیں،کبھی کسی درجہ میں ان کوروشنی کی کرن نظرآتی بھی ہےتو پھر میڈیا پر چھائے ہوئےنام نہاد ماڈرن کہلانے والے اسلامی مفکرین اور اسکالرز کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جو کہ ایک مخصوص ایجنڈا کے تحت پاکستان میں اسلام سے متعلق کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسے شعوری طورپرسمجھنے کی ضرورت ہے۔اوربعض دفعہ تو انہیں سکالرز کی تعبیرات کے نتیجے میں ہی انکے ذہنوں میں شبہات جنم لیتے ہیں۔
اگرچہ مزکورہ بالا ذہنیت کی حامل تعداد ابھی تک بہت ہی قلیل ہے لیکن اگر خدا نہ خواستہ یہ سلسلہ یونہی قائم رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے نوجوانوں کا یہ معمولی طبقہ تعداد میں خاصی ترقی کر جائے گا۔
عین ممکن ہے کہ جو آبزرویشن میں نے پوائینٹ آوٹ کی ہیں وہ میرے علم میں دیر سے آئی ہو۔ اور آپ حضرات پہلے سے ہی بخوبی اس سے واقف ہوں۔
سوچنے کے بات تو یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوالات کیوں پیدا ہوئے؟کیا ایسے سوالات پوچھنا غلط ہے؟ یا ایسے سوالات کو ہینڈل کرنے کی درست حکمت عملی اختیار نہ کرنا غلط ہے؟۔ اور کیاتاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے ؟
میرا خیال یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی ان مفکرین کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے جنہوں نے اسلام کے فلسفہ اور عقلی تعبیرپر زور دیتے ہوئے علماء کو اس طرف متوجہ کیا تھا،میری مراد مجددالف ثانی،امام شاہ ولی اللہ دہلوی،شاہ عبدالعزیز ،مولاناقاسم نانوتوی ،شیخ الہند مولانا محمود حسن اسیر مالٹا اور مولانا عبیداللہ سندھی ہیں،اس لئے سوالات کا پیدا ہونا غلط نہیں ہے لیکن چونکہ مذہبی طبقہ ان بزرگوں کی تعلیمات سے نابلد ہے اس لئےوہ ان نوجوانوں کو مطمئن کرنے میں ناکام نظرآتاہے۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مذہبی طبقےنے دین کے غلبے کے نظریہ کو چھوڑ دیا ہے اوراب وہ دین کوبطور سسٹم سمجھنے سے قاصرہے،جب سرمایہ دارانہ سسٹم کے تحت پیدا کئے گئے سوالات اور اس کے پس منظر کو سمجھے گانہیں تو ان کے پیدا کردہ سوالات پرنوجوانوں کو مطمئن کیسے کرسکے گا۔
باشعور معاشرے اپنے قومی تقاضوں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سیاسی ، معاشی اور فکری نظام مربوط اور منظم انداز میں ترتیب دیتے ہیں اورپھر اس کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش میں لگےرہتے ہیں۔ دوسری اقوام کے تجربات سے فائدہ ضرور اٹھاتے ہیں، لیکن نظام اپنا بناتے ہیں ۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے قومی تقاضوں اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا تعلیمی نظام از سر نو ترتیب دیں او راس سلسلہ میں عصرحاضر کے مجدد دین کی تعلیمات کواپنے لئے مشعل راہ بنائیں،اور اس حوالہ سے عدل و انصاف کا نظریہ امن وامان کی بنیاد پر سیاسی نظام اور بلاتفریق خوشحالی کامعاشی نظام وضع کریں۔یہ ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ اس ذمہ داری کا بارکس کے کندھوں پر ہے؟