مطالعہ کی ضرورت و اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مطالعہ کی ضرورت و اہمیت

    مطالعہ کے لئے کون سی کتب کا اور کیسے مطالعہ کیا جائے اور سبق آموز کیسے بنایا جائے

    By Muhammad Rizwan Ghani Published on Dec 29, 2023 Views 7553
    مطالعہ کی ضرورت و اہمیت
    تحریر :محمد رضوان غنی (نظر آزاد)۔ (میرپور آزاد کشمیر) 

    ہم ایک ایسے دور کا حصہ ہیں، جہاں ہم بدلتے حالات کو اپنے اردگرد میں دیکھ رہے ہیں، لیکن ہماری بے بسی کا یہ حال ہے کہ ہم وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرنے میں اہم پہلوؤں سے نظریں دور کیے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور کا تقاضا جدید لوازمات زندگی ہیں، لیکن علم کی طلب کے تناظر میں ہمارا تعلق تو کتابوں کے ساتھ تھا، جو اَب ناپید ہورہا ہے۔ان کی جگہ آج سمارٹ فون نے لے لی ہے، جس میں ایک بے ہنگم ٹریفک کی طرح معلومات کا انبار ہمارے ذہنوں میں ڈالا جا رہا ہے، جس کا ہمیں صحبت صالح اور درست نظریہ نہ ہونے کے سبب سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ اور پھر کتاب تو ہمیں ایک حوالہ مہیا کرتی ہے جو ہم اپنی گفتگو میں کسی کے سامنے رکھ سکتے ہیں، جب کہ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کسی وقت بھی ڈیلیٹ یا تبدیل کی جاسکتی ہیں۔
    درسی کتب کی اہمیت
    مطالعہ کے لیے ہمارے پاس درسی کتب ہوتی ہیں جو دورانِ تعلیم طالب علم اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور انھیں یادداشت کا حصہ بنا کر امتحان میں اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں۔غیرتدریسی قسم کی کتب کا مطالعہ ہم عقل میں وُسعت پیدا کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اپنے شوق سے کتابوں کا چناؤ کرتے ہیں۔ان کتابوں میں کچھ لوگ افسانوں کو پسند کرتے ہیں،کچھ تاریخ کو مطمع نظر بناتے ہیں اور کچھ کو شعر و شاعری میں شغف ہوتا ہے۔دینی شغف والے لوگ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی جماعت کی سیرت پر مبنی کتب پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگ جدید علوم کے ماہر بنتے ہیں اور دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو کتابوں اور ریسرچ پیپرز میں لکھنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ 
    لائبریریز کی اہمیت 
    ایک وقت تھا جب لائبریریاں کتب اور انھیں پڑھنے والوں سے بھری ہوتی تھیں،لوگ تدریسی اور غیرتدریسی کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے بھی جاسوسی ناول اور افسانے پڑھنے کی لت پڑ گئی تھی اور میں گھر سے جیب خرچ کے طور پر ملنے والے پیسے اس میں خرچ کرتا تھا۔ ہمارا یہ کلچر تھا کہ ہم ایک دوسرے کو تحفہ میں کتاب پیش کرتے تھے۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا تھا، جس میں کتابوں کی الماری نہ ہو، لیکن وقت نے ایسی کایا پلٹی کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام نے ہماری ذہنیت کو پست کردیا۔ جدید آلات نے کتابوں کی جگہ قبضہ جما لیا اور ہمیں کتاب سے دور کر کے ذہنی غلامی کا شکار کر دیا۔ 
    مطالعہ کی اہمیت 
    مطالعہ روح کی غذا ہے، جیسے جسم کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح روح کو سیر کرنے کے لیے، اس کے علاج کا مفید مطالعہ اہم کردار ادا کرتا ہے،جن انبیائے کرام پر کتابیں نازل ہوئیں ان کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پیغام الٰہی کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے طریقہ کار بھی سکھایا گیا اور جن انبیائے کرام پر کتابیں نازل نہیں ہوئیں انھیں اپنے پیش رو انبیائے کی کتابوں کے فہم و ابلاغ کا حکم دیا گیا۔ 
    خاتم الانبیا حضرت محمد ﷺ کی دُعا قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔ رَب زدنی علما (اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما) یہ دعا ہمیں اس فکر و تدبر کی طرف بلاتی ہے کہ اگر آپ ﷺ نے علم کے اضافے کی دعا فرمائی ہے تو ہمیں بھی اس اضافہ کے لیے کچھ کرنا پڑے گا، جس کے لیے مطالعہ اور جنھیں علم پر دسترس ہے۔ ان کی صحبت اختیار کرنی پڑے گی۔ قرآن حکیم کی یہ آیت و یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ (وہ انھیں کتاب کا علم سکھائے) واضح کرتی ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے بغیر کتاب کو نہیں سمجھ پائے. حال آں کہ وہ عربی دان تھے۔ 
    قابل مطالعہ علوم
    اَب سوال یہ ہے کہ کن علوم کا مطالعہ کیا جائے؟ جس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو ہم درسی کتب کا مطالعہ کریں، پھر جو ہمارا ذوق ہے، اس کے مطابق مفید علوم پر مبنی کتب کا مطالعہ کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ہم قرآن مجید اور سیرت رسول ﷺ کے مطالعے کو اپنی عادت بنائیں، آپ ﷺ اور آپ کی جماعت کے اُسوہ کو آج کے دور میں راہ نمائی کا ذریعہ سمجھ کر قوم کی ترقی کا سبب بنیں۔ پھر اس کے علاوہ جو بھی مطالعہ کریں اس میں مثبت سوچ کو اپنائیں، تاکہ ہمارے ذہن میں وُسعت نظری پیدا ہو،قوت برداشت اور گفتگو میں شائستگی آئے۔ قوموں پر آنے والے عروج و زوال کے اسباب اور وجوہات تلاش ہوسکیں اور ہم دلیل کے ساتھ گفتگو کرنے کے قابل ہوسکیں۔ 
    قابل مطالعہ کتب کی خصوصیات
    مطالعہ کے لیے چنی جانے والی کتابوں کا معیار ایسا ہو کہ: 
    1۔  جس سے ہماری تربیت ہو۔
    2۔  اچھائی اور برائی میں فرق کر سکیں۔
    3۔  نظام ظلم کا شعور آئے۔ 
    4۔ اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت سمجھ سکیں۔ 
    5۔ قومی آزادی اور ترقی کا ذہن بنے۔
    6۔ ایسی کتب جن سے ہم اولیاء اللہ اور علمائے ربانیین کی جدوجہد اور مساعی سے آشنا ہو سکیں۔ 
    7۔ دین اسلام کے غلبے کی تاریخ اور اس مخلص قیادت سے واقیت ہوسکے، جنھوں نے قوم کی آزادی اور ترقی کے لیے کردار ادا کیا۔صراط مستقیم کے مطابق راہ نمائی کی اور عملی جدو جہد سے اپنے سچا ہونے کو ثابت کیا۔
    مطالعہ کا طریقہ کار
    مطالعہ سے پہلے ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہم اس سے کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں؟ موضوع کا انتحاب کریں، اس پر محققین کی کتابوں کی فہرست بنائیں اور پھر ان کا مطالعہ کریں۔ 
    ایک طالب علم کو انھی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جو اس کی مثبت ذہن سازی کرسکیں۔ جذباتیت کو مثبت سمت دے سکیں، تاکہ نوجوان معاشرے میں مفید کردار ادا کر سکیں۔ آج ہمارا ملک مصائب سے دوچار ہے، جن سے نجات کے لیے راہ نمائی کا کوئی سازگار ماحول میسر نہیں۔ 
    افسوس! اس بات کا ہے کہ یہاں علما اور مشائخ بھی دور کے تقاضوں کے مطابق حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ آج نوجوان کا مسئلہ سائنسی ذہنیت کا ہے جو بغیر دلیل و ثبوت کے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ آج نوجوانوں کی اس پہلو سے درست راہ نمائی کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ان جماعتوں کا حصہ نہ بنیں جو اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر کے ضائع کر دیں۔ 
    ایسا علم جو کسی کو فائدہ نہ دے سکے، اس علم سے آپ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔ ایسے علم شیطانی وسوسوں کا باعث بنتے ہیں اور حق کی پہچان میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ آج مایوسی کی بڑی وَجہ یہی ہے کہ ہمیں حق کے راستہ کی پہچان کا طریقہ کار معلوم نہیں۔
    مطالعہ کے فوائد و نتائج 
    مطالعہ وہی بہتر ہے، جس سے آپ کی اصلاح ہو اور اپنے تعلق والوں کی راہ نمائی کر سکیں۔مطالعہ کا حاصل پہلے درجے میں آپ کی اپنی شخصیت کا نکھار ہے۔ آپ کے اخلاق میں ترقی آپ کے کردار سے ظاہر ہو۔آج بھی ایک علمی طبقہ اپنے علم کی وَجہ سے خود کو بہترین تصور کرتا ہے اور اسی علم کی بنیاد پر دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ ایسی تکبر کی سوچ کو اللہ تعالیٰ سخت نہ پسند کرتے ہیں۔ علم کا اصل منبع تو اللہ پاک کی ذات ہے۔ ہم اس کے علم سے کچھ حصہ سیکھ جائیں تو انسانیت کو اس سے فائدہ پہنچنا چاہیے تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں علمی تکبر سے بچائے اور غیر نافع علم سے دور رکھے۔ آمین!
    Share via Whatsapp