شب بھر رہا "چرچا" تیرا
کہتے ہیں شاعر کی شہرت میں شاعری سے زیادہ پروپیگنڈے کا دخل ہے ورنہ احسان دانش اور حبیب جالب زیادہ مشہور ہوتے
شب بھر رہا "چرچا" تیرا
تحریر: پروفیسر نعمان باقر نقوی، کراچی
کہتے ہیں شاعر کی شہرت میں شاعری سے زیادہ" پروپیگنڈے" کا عمل دخل ہوتا ہے ، ورنہ احسان دانش اور حبیب جالب زیادہ مشہور ہوتے ۔ پروپیگنڈہ کی طاقت اور اہمیت تو ہم پر جب ہی واضح ہو گئی تھی جب ہم نے یہ غزل پہلی بار سنی اور پھر باربار سنی،
" کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا"
خاص کر یہ شعر محبت کے "پرو پیگنڈے" کا شاہ کار ہے.
اس شہر میں کس سے ملیں ، ہم سے تو چھوٹیں محفلیں ،
ہر شخص تیرا نام لے ۔۔۔۔ ہر شخص دیوانہ ترا ۔
پھر جب ہم بڑے ہوئے اور جب بھی سوچنے کا موقع ملا تو اکثر سوچتے کہ "انشاء جی " کی ایسی اچھی غزل کے بعد پھر وصی شاہ کیوں مشہور ہوئے؟ بلکہ ہماری تو سمجھ میں یہ بھی کبھی نہ آیا کہ "مومن" کے ہوتے ہوئے اور " کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی" والی غزل کے بعد تو کسی اور کو شاعر اور شاعری کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن لگتا یہی ہے کہ استاد ذوق "گلشن" میں آئے اور غالب کے خلاف "پروپیگنڈہ" کا کاروبار کرنے لگے۔ بس پھر کیا تھا ! غالب کب پیچھے رہتے!
اب صورت یوں ہے کہ "مومن" کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ ہر کس و ناکس یہی پوچھتا ہے کہ "غالب" کس کےمقروض تھے ۔اور وہ انہیں قرض کیوں دیتا تھا اور غالب کی فاقہ مستی کیا رنگ لائی؟ ۔ دوسری بات یہ سنی کہ ان مشہور اردو شاعروں کی آپس کی لڑائی اور اپنے عشق کے "پروپیگنڈے" کی وجہ سے نوجوان ان سے ناراض ہوئے اور یوں انگریزی شاعر "بائرن ورڈس ورتھ کیٹس" نوجوانوں میں مقبول ہوگئے۔
ایک زمانے تک ہم یہی سوچتے رہے کہ بھئی ! انگریز کا دور تھا ہر طرف امن و امان تھا "شر" اور" آفت" کا ، مطلب شرافت کا دورتھا۔ شخصی آزادی محفوظ تھی ۔ترقی کا دور شروع ہوچکا تھا علوم و فنون پھیل رہے تھے، بیراج بن رہے تھے، ریل کا انجن چل رہا تھا ، اسکول اور کالج کھل رہے تھے ۔
پھر اچانک جانے کیا ہوا ! ہٹلر نے جنگ چھیڑدی. یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جنگ ہٹلر نے ہی چھیڑی تھی، اس نےاتحادیوں سےٹکر لی بس پھر کیاتھا " گوئبلز" ہار گیا ۔ ہاں ایک بات ! اسی جنگ کی وجہ سے ہم تو تباہ ہوئے، لیکن دنیا بدل گئی۔انہی دنوں ایک انقلابی چیز ایجاد ہوئی جس کا ذکر تو میں بھول ہی گیا ! بی بی سی اوہ ! یعنی ریڈیو بی بی سی سامنے آئی ! وہی جس سے یہ نغمہ نشر ہوتا تھا؛
کل چودہویں کی رات تھی۔۔۔۔۔۔
ریڈیو نے دنیا بدل دی اور جب سے اب تک دنیا ہی بدل رہی ہے اور ہم وہیں کے وہیں ہیں ۔
پھر ہوائی جہاز ایجاد ہوگیا اور رکیے ! یاد آیا ایک جگہ بھی ہے "رک " یہ اپنے شکارپور سندھ میں ہے۔
کہتے ہیں اگر ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوتا تو الماآتے(دارالحکومت قازقستان)، بیجنگ، تائیوان جانے کے لیے ٹرین یہاں سے بدلتے، آپ کو یاد ہے ؟ ٹرین انگریز نے دی تھی ورنہ ہم ابھی تک ۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگ عظیم میں پھر ایٹم بم ایجاد ہوگیا لیکن یاد رہے پہلی محبت، اوہ سوری! جنگ ۔ جرمنی نے شروع کی تھی پھر ہمارا ملک آزاد ہوگیا ۔ریاست ہائے جمہوری برطانیہ نے کیا خوب کردار اداکیا ہمارے ملک کو ٹرین دی بیراج دیے جمہوریت دی جمہوریت.۔ نا، نا،۔۔ جاگیر دار تو مغلوں کے دور سے ہیں انگریز کا کیا قصور سارا قصور گوئبلز کا ہے، پروپیگنڈہ کا بانی وہی تھا۔ کیا کروں بھول جاتا ہوں ! ہاں یاد آیا ،کہ اس وقت ایجادات شروع ہوگئیں ۔سوچیے ذرا ! انسان چاند پر جا پہنچا، کیمرہ تو تھا ہی فلمیں بھی تھیں پھر ٹی وی ، وی سی آر کیبل ٹی وی انٹرنیٹ، موبائل، ترقی، بلند و بالا عمارتیں، غرض ناقابل شکست ترقی ؛ پھر وہی کمبخت سوچنے کی بیماری! یہ پولیو نمونیا ڈینگی مچھر یہ بھی بیماریاں ہیں ان سب کے خلاف بل گیٹس لڑ رہے ہیں وہ نہ ہوتے تو ۔۔۔۔۔۔۔
یہ خبر ہے یا پروپیگنڈہ کہ ٫ووہان وائرس، کے آنے سے پہلے ہی امریکا میں انفلوئنزا وائرس (فلُو وائرس) کی وبا پھیل چکی تھی۔ امریکی سرکاری ادارے ’’سی ڈی سی‘‘ (سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن) کی اپنی جاری کردہ، تازہ رپورٹ کے مطابق، اندازہ ہے کہ امریکا میں اس وقت انفلوئنزا کی تازہ وبا سے وہاں مجموعی طور پر 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) افراد متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 140,000 (ایک لاکھ چالیس ہزار) افراد کو اسپتالوں میں داخل کرایا جاچکا ہے؛ جبکہ 8,200 افراد اسی انفلوئنزا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ اعداد و شمار صرف حالیہ ’’فلُو سیزن‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں جو 2019 کے اختتامی دنوں میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
میں سوچنے لگا ہوں ، کتنی عجیب بات ہے! امریکی میڈیا نے اپنے ملک میں انفلوئنزا سے 8,200 اموات پر تو مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور چائنا کے کرونا وائرس پہ رونے دھونے سے بس ہی نہیں کرتا جسے "پھیلانے"کا ٫کارنامہ، اس نے ہمیشہ کی طرح " خود" ہی انجام دیا ہے ۔
پھر مجھےیہ بات سمجھ آگئی کہ واقعی پروپیگنڈہ" گوئبلز " کی اختراع ہے وہ کہتا تھا کہ "جھوٹ کو اس قدر دہراؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں" ، اور یہ کوئی ٫جھوٹ، تو ہے نہیں ، تو پھر کیوں، دہرائیں،۔۔۔۔۔ کل چودہویں کی رات تھی
شب بھر رہا چرچا تیرا ،
کسی نے کہا یہ چاند ہے کسی نے کہا چہرہ ترا،
تحریر: پروفیسر نعمان باقر نقوی، کراچی
کہتے ہیں شاعر کی شہرت میں شاعری سے زیادہ" پروپیگنڈے" کا عمل دخل ہوتا ہے ، ورنہ احسان دانش اور حبیب جالب زیادہ مشہور ہوتے ۔ پروپیگنڈہ کی طاقت اور اہمیت تو ہم پر جب ہی واضح ہو گئی تھی جب ہم نے یہ غزل پہلی بار سنی اور پھر باربار سنی،
" کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا"
خاص کر یہ شعر محبت کے "پرو پیگنڈے" کا شاہ کار ہے.
اس شہر میں کس سے ملیں ، ہم سے تو چھوٹیں محفلیں ،
ہر شخص تیرا نام لے ۔۔۔۔ ہر شخص دیوانہ ترا ۔
پھر جب ہم بڑے ہوئے اور جب بھی سوچنے کا موقع ملا تو اکثر سوچتے کہ "انشاء جی " کی ایسی اچھی غزل کے بعد پھر وصی شاہ کیوں مشہور ہوئے؟ بلکہ ہماری تو سمجھ میں یہ بھی کبھی نہ آیا کہ "مومن" کے ہوتے ہوئے اور " کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی" والی غزل کے بعد تو کسی اور کو شاعر اور شاعری کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن لگتا یہی ہے کہ استاد ذوق "گلشن" میں آئے اور غالب کے خلاف "پروپیگنڈہ" کا کاروبار کرنے لگے۔ بس پھر کیا تھا ! غالب کب پیچھے رہتے!
اب صورت یوں ہے کہ "مومن" کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ ہر کس و ناکس یہی پوچھتا ہے کہ "غالب" کس کےمقروض تھے ۔اور وہ انہیں قرض کیوں دیتا تھا اور غالب کی فاقہ مستی کیا رنگ لائی؟ ۔ دوسری بات یہ سنی کہ ان مشہور اردو شاعروں کی آپس کی لڑائی اور اپنے عشق کے "پروپیگنڈے" کی وجہ سے نوجوان ان سے ناراض ہوئے اور یوں انگریزی شاعر "بائرن ورڈس ورتھ کیٹس" نوجوانوں میں مقبول ہوگئے۔
ایک زمانے تک ہم یہی سوچتے رہے کہ بھئی ! انگریز کا دور تھا ہر طرف امن و امان تھا "شر" اور" آفت" کا ، مطلب شرافت کا دورتھا۔ شخصی آزادی محفوظ تھی ۔ترقی کا دور شروع ہوچکا تھا علوم و فنون پھیل رہے تھے، بیراج بن رہے تھے، ریل کا انجن چل رہا تھا ، اسکول اور کالج کھل رہے تھے ۔
پھر اچانک جانے کیا ہوا ! ہٹلر نے جنگ چھیڑدی. یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جنگ ہٹلر نے ہی چھیڑی تھی، اس نےاتحادیوں سےٹکر لی بس پھر کیاتھا " گوئبلز" ہار گیا ۔ ہاں ایک بات ! اسی جنگ کی وجہ سے ہم تو تباہ ہوئے، لیکن دنیا بدل گئی۔انہی دنوں ایک انقلابی چیز ایجاد ہوئی جس کا ذکر تو میں بھول ہی گیا ! بی بی سی اوہ ! یعنی ریڈیو بی بی سی سامنے آئی ! وہی جس سے یہ نغمہ نشر ہوتا تھا؛
کل چودہویں کی رات تھی۔۔۔۔۔۔
ریڈیو نے دنیا بدل دی اور جب سے اب تک دنیا ہی بدل رہی ہے اور ہم وہیں کے وہیں ہیں ۔
پھر ہوائی جہاز ایجاد ہوگیا اور رکیے ! یاد آیا ایک جگہ بھی ہے "رک " یہ اپنے شکارپور سندھ میں ہے۔
کہتے ہیں اگر ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوتا تو الماآتے(دارالحکومت قازقستان)، بیجنگ، تائیوان جانے کے لیے ٹرین یہاں سے بدلتے، آپ کو یاد ہے ؟ ٹرین انگریز نے دی تھی ورنہ ہم ابھی تک ۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگ عظیم میں پھر ایٹم بم ایجاد ہوگیا لیکن یاد رہے پہلی محبت، اوہ سوری! جنگ ۔ جرمنی نے شروع کی تھی پھر ہمارا ملک آزاد ہوگیا ۔ریاست ہائے جمہوری برطانیہ نے کیا خوب کردار اداکیا ہمارے ملک کو ٹرین دی بیراج دیے جمہوریت دی جمہوریت.۔ نا، نا،۔۔ جاگیر دار تو مغلوں کے دور سے ہیں انگریز کا کیا قصور سارا قصور گوئبلز کا ہے، پروپیگنڈہ کا بانی وہی تھا۔ کیا کروں بھول جاتا ہوں ! ہاں یاد آیا ،کہ اس وقت ایجادات شروع ہوگئیں ۔سوچیے ذرا ! انسان چاند پر جا پہنچا، کیمرہ تو تھا ہی فلمیں بھی تھیں پھر ٹی وی ، وی سی آر کیبل ٹی وی انٹرنیٹ، موبائل، ترقی، بلند و بالا عمارتیں، غرض ناقابل شکست ترقی ؛ پھر وہی کمبخت سوچنے کی بیماری! یہ پولیو نمونیا ڈینگی مچھر یہ بھی بیماریاں ہیں ان سب کے خلاف بل گیٹس لڑ رہے ہیں وہ نہ ہوتے تو ۔۔۔۔۔۔۔
یہ خبر ہے یا پروپیگنڈہ کہ ٫ووہان وائرس، کے آنے سے پہلے ہی امریکا میں انفلوئنزا وائرس (فلُو وائرس) کی وبا پھیل چکی تھی۔ امریکی سرکاری ادارے ’’سی ڈی سی‘‘ (سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن) کی اپنی جاری کردہ، تازہ رپورٹ کے مطابق، اندازہ ہے کہ امریکا میں اس وقت انفلوئنزا کی تازہ وبا سے وہاں مجموعی طور پر 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) افراد متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 140,000 (ایک لاکھ چالیس ہزار) افراد کو اسپتالوں میں داخل کرایا جاچکا ہے؛ جبکہ 8,200 افراد اسی انفلوئنزا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ اعداد و شمار صرف حالیہ ’’فلُو سیزن‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں جو 2019 کے اختتامی دنوں میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
میں سوچنے لگا ہوں ، کتنی عجیب بات ہے! امریکی میڈیا نے اپنے ملک میں انفلوئنزا سے 8,200 اموات پر تو مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور چائنا کے کرونا وائرس پہ رونے دھونے سے بس ہی نہیں کرتا جسے "پھیلانے"کا ٫کارنامہ، اس نے ہمیشہ کی طرح " خود" ہی انجام دیا ہے ۔
پھر مجھےیہ بات سمجھ آگئی کہ واقعی پروپیگنڈہ" گوئبلز " کی اختراع ہے وہ کہتا تھا کہ "جھوٹ کو اس قدر دہراؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں" ، اور یہ کوئی ٫جھوٹ، تو ہے نہیں ، تو پھر کیوں، دہرائیں،۔۔۔۔۔ کل چودہویں کی رات تھی
شب بھر رہا چرچا تیرا ،
کسی نے کہا یہ چاند ہے کسی نے کہا چہرہ ترا،
ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا ،