افسانہ: بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے
اور آخر کار پرنسپل صاحب نے تنگ آکر اسے سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ ہاتھ میں تھما دیا،جس میں لکھا تھا:
افسانہ: بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے
تحریر: سفیان خان۔ بنوں
اور آخر کار پرنسپل صاحب نے تنگ آکر اسے سکول
چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ ہاتھ میں تھما دیا،جس میں لکھا تھا:
”اس کا رویہ پورے کیریئر میں طے شدہ اصولوں کے
خلاف پایا گیا ہے، لہٰذا سکول ہٰذا اسے characterless تصور کرتا ہے“۔
کاغذ کا یہ ٹکڑا اتنا بھاری ثابت ہوا کہ وہ جس
سکول میں داخلہ لینے جاتا، سکول والے characterless کی سند دیکھ کر اسے فوراً
باہر نکال دیتے۔
ایک ایک کرکے اس نے غالباً شہر کے تمام سکول
چھان مارے، لیکن بداخلاقی کی یہ سند اس کے گلے کا ایسا داغدار طوق بن گیا کہ کوئی
بھی اسے مونہہ لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
جب اس نے محسوس کیا کہ سکول ایجوکیشن سے اس کی
ہمیشہ کے لیے چھٹی ہوگئی ہے تو اس نے ایک مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ کچھ ہی دن بعد
مدرسہ والوں نے بھی اسے گھسیٹ کر باہر نکالا۔ مدرسہ کے مہتمم نے فوراً لاؤڈ سپیکر
میں یہ بیان اعلانِ عام کیا:
”ادارے کے مقدس اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والا
ایک گستاخ ہم نے مار بھگایا ہے، لہٰذا مدارس کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے کوئی بھی
دینی مدرسہ اسے داخلہ دینے کے گناہ کا مرتکب نہ ہو“۔
اس اعلان نے اس کی دینی تعلیم کی آرزوؤں کو بھی
خاک میں ملادیا۔
مایوس ہوکر جب وہ گھر لوٹ آیا تو گاؤں میں پہلے
سے ہی نیوز بریک ہوئی تھی۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتا، گاؤں کے چھوٹے بڑے اسے مشکوک
نظروں سے دیکھتے۔ دوستوں نے اس کا نام بدل کر ”سکول نکالا“ رکھ دیا۔ مسجد کے امام
نے اسے ”گستاخ بھگوڑا“ کا خطاب عنایت کیا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ امام صاحب
نے باپ کو سمجھایا کہ آپ کا بیٹا شدید اخلاقی بحران کا شکار ہے اور ایسے گستاخوں
کو گھر میں رکھنے سے عذاب آتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ آپ اسے کہیں کام دھندے پر لگا
لو، دو چار آنے بھی آئیں گے اور اس کے گناہِ کبیرہ کا کفارہ بھی ادا ہوتا رہے گا۔
باپ نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے
اسے ایک موٹرسائیکل میکینک کے ہاں کام پر لگا دیا۔ وہ بہت خوش تھا اور اس نے پوری
دلجمعی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا، لیکن حسبِ معمول چند ہی دنوں میں استاد نے اسے
سخت غصے کی حالت میں موٹی موٹی گالیوں سے رخصت کیا۔ استاد کی سختی اور اس کی بُری
ریپوٹیشن نے اسے کہیں پر بھی کام کے قابل نہیں چھوڑا۔اس نے ہر جگہ کام ڈھونڈنے کی
کوشش کی، لیکن کوئی بھی اسے کام دینے کے لیے راضی نہ تھا۔
کچھ دن کھائے بغیر ہی نکال دیے، لیکن جب بھوک
کے مارے اس کا بدن اس درجے کمزور ہوا کہ سانس لینا بھی دشوار پڑ گیا تو اسے معلوم
ہوا کہ بھوک اس کے اندازے سے کہیں زیادہ وزنی چیز ہے، چناں چہ اس نے تہذیب کے سارے
آداب بھلا کر بھیک مانگنا شروع کیا۔
”روٹی دے دو کام لے لو“ کے انوکھے نعرے بلند
کرتا ہر گلی ہر دکان میں حاضری لگائی، لیکن کسی کو بھی یہ سودا منظور نہ ہوا۔ لوگ
اسے سوداگر کی نظروں سے دیکھتے ضرور، مگر اس کا کمزور بدن آڑے آکر ہر سودے کو
منسوخ کروا دیتاتھا۔ بھوک سے نڈھال اس ناکام بھکاری کی محنت میں اتنا دم بھی نہیں
تھا کہ ایک عدد روٹی کے عوض بیچا جاتا۔
ایک شام رات کی تاریکیوں میں جب اس کی اُمید
پوری طرح دم توڑنے لگی، تو ناامیدی کی ایک زوردار جھٹکے نے اسے دھڑام سے گرا کر بے
ہوش کر ڈالا۔
جوں ہی اس کی آنکھیں بے ہوشی کے عالم میں بند
ہوئیں تو فوراً اسے گول گول، نرم اور گرم روٹیوں کے خواب آنے لگے۔ وہ ایک بڑا نوالا
مونہہ میں رکھنے ہی والا تھا کہ اس کی آنکھیں کھلیں اور وہ بھوک کی حقیقی دنیا میں
واپس لوٹ آیا۔ اَب کی بار بھوک اتنی شدت سے محسوس ہونے لگی، جیسے کسی نے پیٹ میں
ابھی ابھی آگ کے شعلے بھڑکائے ہوں۔
پیٹ سے مسلسل آنے والی
آوازوں نے اُسے اتنی غیرت دِلائی کہ ایک دم سے اُٹھ کر سیدھی سمت ایسے دوڑا، جیسے
کسی نے ٹھیک ٹھاک پتہ بتا دیا ہو۔ تیز سانسوں، ٹپکتے رال، لاغر سے بدن اور خالی
پیٹ نے اس کی راہ میں زبردست رکاوٹ ڈال رکھی تھی، لیکن بھوک ان سب پہ اتنی بھاری
ثابت ہوئی کہ اسے ایک ہی لمحے میں منزلِ مقصود پر پہنچا دیا۔ وہ بغیر رُکے اپنی
ڈھونڈتی ہوئی روشنی میں جا گھسا۔ گھسنے پر معلوم ہوا کہ اس کی منزلِ مقصود کوئی
عام روشنی نہیں، بلکہ تنور کی روشنی ہے۔ چناں چہ وہ اسی رفتار سے جاتے ہوئے تنور
پر لپکا اور تنور سے ایک نیم پختہ نان اُٹھا کر ایک ہی نوالے میں ہڑپ لیا۔ روٹی
ابھی حلق سے ہو کر معدے میں گرنے ہی والی تھی کہ چور چور کی صدائیں گونج اٹھیں اور
درجنوں لوگ اپنا ایمان تازہ کرنے کی نیت سے اُس پر جھپٹ پڑے۔ اس کا کمزور بدن
لوگوں کی مضبوط ایمانی قوت کے آگے ایک ہی فرصت میں ڈھیر ہوا۔ عین اس وقت کہ وہ ایک
آخری سانس لے پاتا، کچھ لوگ اس کے سینے پر ایسے چڑھ دوڑے، جس سے اس کی مزید آکسیجن
سمیٹنے کی طاقت ختم ہوگئی۔ چناں چہ وہ ایک زوردار چیخ کے ساتھ خشک قے انڈیلتے ہوئے
چل بسا!
”حرام کھا کے مر گیا“ لوگوں
نے یہ کہنے میں کچھ زیادہ ہی جلدی کردی، حال آں کہ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ قے
نہیں، بلکہ صحیح سلامت گول مٹول سے روٹی تھی جو وہ بغیر چبائے نگل گیا تھا۔۔۔!
وہ ورثے میں ایک پھٹا پرانا
کپڑا، ایک عدد ڈائری اور جان لیوا بھوک چھوڑ کر گیا۔ اس کی ڈائری سے کچھ اقتباسات
پڑھنے پر کہانی کا دوسرا رخ بھی بے نقاب ہوا۔ پتہ چلا کہ وہ ایک بدقسمت غریب زادہ
تھا جو بڑے شوق سے سکول جایا کرتا تھا۔ وہ اپنے اساتذہ کی ہر ایک بات پر سب سے
پہلے رسپانس دیتا تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ غربت، فاقہ کشی، مسلسل بھوک اور
محرومیوں نے اس کے خیالات، تصورات اور خواہشات کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ اس کی
سوچ ہمیشہ انھی چیزوں کے گرد گھومتی تھی جو کہ اس کے لیے ابھی تک لاحاصل تھیں۔
چناں چہ جب بھی ٹیچر کہتا کہ:
کسی بھی گول شکل کو دائرہ کہتے ہیں۔
وہ فوراً پوچھتا، جیسے روٹی؟
دو جمع دو چار ہوتے ہیں۔
وہ فوراً پوچھتا، جیسے چار روٹیاں؟
سورج ہر طرف روشنی پھیلاتا ہے۔
وہ فوراً پوچھتا جیسے تنور کی روشنی؟
خوشبو ہوا میں بکھرتی ہے۔
وہ فوراً پوچھتا، جیسے سالن کی خوشبو؟
علم سے طاقت ملتی ہے۔
وہ فوراً پوچھتا، جیسے روٹی سے؟
دوزخ بڑی سخت جگہ ہے۔
وہ فوراً پوچھتا، بھوک جتنی؟
جنت میں سب کچھ ہوگا۔
وہ فوراً پوچھتا، پیٹ بھر کر کھانا بھی؟
اساتذہ کو اس کا یہ رویہ ایک آنکھ نہ بھایا تو
بار بار شکایتیں کرنے لگے۔ آخر کار پرنسپل صاحب نے اسے سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ
ہاتھ میں تھما دیا۔
وہ لکھتا ہے: ”میں شاید سکول
سے نکالنے کا غم برداشت نہ کر پاتا، لیکن میں تشدد کا بچپن سے عادی ہوں اور سچ تو
یہ ہے کہ غربت تشدد کی بدترین قسم ہے۔“
جب وہ مدرسے میں داخل ہوا تو وہاں کے مہتمم
صاحب نے بچوں کےلیے ایک خاص قانون بنا رکھا تھا کہ ”ایک عدد روٹی سے زیادہ کوئی
نہیں کھائے گا۔ لہٰذا جو کوئی اس قانون کو پامال کرتے ہوئے پایا گیا، اسے نشانِ
عبرت بنایا جائے گا۔“ غریب زادے نے کچھ دن تو ایک عدد روٹی میں گزارا کرکے نکال
دئے، لیکن پھر جلد ہی اس قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک آدھ روٹی اضافی کھانے کا
گناہ سرزد کیا، جیسے ہی مہتمم صاحب کو خبر ملی، اس نے بغیر وقت ضائع کئے اس قانون
شکن کو مدرسے سے گھسیٹ کر باہر نکالا۔
وہ لکھتا ہے؛ ”جی چاہتا ہے میں ان تمام
خداپرستوں کے آگے عرضی لے کر چلوں کہ گستاخی کے فتوؤں میں بھوکوں کو خصوصی چھوٹ دی
جائے، کیوں کہ بھوک کا حملہ بہت شدید اور اس کا زخم بڑا گہرا ہوتا ہے۔ بھوک تہذیب
کے سانچوں میں ڈھلنے والی چیز تھوڑی ہے، یہ تو تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے۔ فتوؤں
کا بھوکوں سے کیا لینا دینا، بھوکے پیٹ کا مذہب تو روٹی ہے۔“
جو وہ موٹر سائیکل میکینک کے ساتھ کام پر لگا
تو وہاں پر کام خراب کرنے کی سزا یہی تھی کہ ایک دن کا کھانا بند کر دیا جاتا۔
غریب زادہ چوں کہ نیا نیا آیا تھا، وہ سکول میں سی فار کیٹ (cat) اور ایم فار موٹر سائیکل تو بہت
پہلے سیکھ چکا تھا، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ سی فار چین
(chain) اور
ایم فار موبل آئل (mobil-oil) بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ پہلے دن جب استاد نے اسے
ایک چین کو ڈھیلا کرنے کا کام سونپ دیا، تو اس نے الٹا چین کو مزید سخت کردیا۔ یوں
اس کے پہلے دن کا کھانا بند کر دیا گیا۔ دوسرے دن استاد نے موٹرسائیکل میں موبل
آئل ڈالنے کا کام دیا، تو اس نے بجائے انجن کے اسے فیول ٹینک میں ڈلوا دیا۔ اَب کی
بار استاد اتنے طیش میں آئے کہ اپنے ہی قانون کو بھول کر بجائے کھانا بند کرنے کے
اسے فوراً موٹی موٹی گالیوں کے ساتھ کام سے ہی فارغ کر دیا۔
اپنی ڈائری کے اختتام میں اس نے دنیا والوں کے
سامنے کچھ گزارشات کیں ہیں۔وہ کہتا ہے خدارا!مجھے بداخلاق تصور نہ کیا جائے۔مجھے
اخلاقی نہیں، معاشی مسئلہ درپیش ہے اور یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ
اخلاقیات معاشیات کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات
کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہے تو پھر مجھے میری خراب معیشت نے پہلے سکول پھر مدرسے
اور پھر اپنے ہی گھر سے کیوں نکلوا دیا؟ اگر اخلاقیات اور معاشیات کا آپس میں کوئی
تعلق نہیں ہے تو پھر میری خراب معیشت نے مجھے ابنارمل سٹوڈنٹ، قانون شکن، بھکاری
اور پھر چور کیسے بنا دیا؟ غربت اگر رَب ہی کی طرف سے آزمائش ہے تو پھر یہی غربت
ہمیں کفر تک کیوں لے جاتی ہے؟