انگریزی زبان: علم کا دروازہ یا طبقاتی دیوار؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انگریزی زبان: علم کا دروازہ یا طبقاتی دیوار؟

    علم انسانی ترقی اور اجتماعی بےداری کا بنیادی وسیلہ ہے، لیکن جب علم تک رسائی صرف ایک ہی زبان تک محدود ہو کر رہ جائے تو ۔۔۔

    By سلیمان علی Published on Nov 28, 2025 Views 264

    انگریزی زبان: علم کا دروازہ یا طبقاتی دیوار؟

    تحریر؛ سلیمان علی، پشاور  

     

    علم انسانی ترقی اور اجتماعی بےداری کا بنیادی وسیلہ ہے، لیکن جب علم تک رسائی صرف ایک ہی زبان تک محدود ہو کر رہ جائے تو وہی زبان دروازہ بھی بن جاتی ہے اور دیوار بھی۔ برصغیر میں انگریزی زبان اس دو رُخی حقیقت کی نمایاں ترین مثال ہے۔ ایک جانب یہ جدید سائنس، ٹیکنالوجی اور عالمی تحقیق کی دنیا میں داخلے کی کلید ہے، تو دوسری جانب یہی زبان ایک ایسی سماجی اور معاشی رکاوٹ بھی ہے جو معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا باعث بنتی ہے۔ انگریزی کے نوآبادیاتی پس منظر، تاریخی بنیادوں اور موجودہ ریاستی و تعلیمی ترجیحات نے اس تضاد کو اور بھی گہرا کردیا ہے۔ ایک طرف انگریزی ہمیں عالمی نظامِ علم سے جوڑتی ہے تو دوسری طرف ہمارے معاشرے میں ایک ایسی شناختی لکیر کھینچ دیتی ہے جو ذہانت و قابلیت کے مقابلے میں محض زبان دانی کو کامیابی کا معیار ٹھہراتی ہے۔ اسی تضاد میں اس پورے مسئلے کی اصل گرہ مضمر ہے۔

    اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو برصغیر میں انگریزی کی طبقاتی حیثیت کسی فطری ارتقا کا نتیجہ نہیں (جیسا کہ اردو جیسی شستہ زبان سر زمین ہند کی فطری ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئی)، بلکہ ایک سوچے سمجھے نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ تھی۔ 1835ء میں لارڈ میکالے (Macaulay, 1835) کے مشہورِ زمانہ چار سالہ سیاحتی رپورٹ "Minute on Education"نے اس پالیسی کی بنیاد رکھی، جس میں پہلی بار ایک مخصوص طبقہ تیار کرنے پر زور دیا گیا جو "رنگ و خون میں ہندوستانی مگر اخلاق، ذوق اور ذہانت میں انگریز" ہو۔ اس حکم نامے کے تحت فارسی اور دیگر مقامی زبانیں بتدریج تعلیمی دھارے سے خارج ہوتی چلی گئیں اور تعلیم عوام الناس کے بجائے ایک محدود اشرافیہ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ مہاتما گاندھی نے اسی حکمتِ عملی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:

    لاکھوں افراد کو انگریزی میں پڑھانا، دراصل انھیں ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف ہے “۔(Gandhi, 1909) ۔ 

    نامور محقق دھرم پال کی تحقیقات سے بھی انکشاف ہوا کہ برطانوی راج سے پہلے برصغیر میں مقامی زبانوں کے ذریعے تعلیم عام تھی، لیکن انگریزی کے نافذ ہوتے ہی چند دہائیوں میں خواندگی کی شرح گر کر صرف 3 سے 6 فی صد رہ گئی (Mukerjee, 1880s) ؛ Dharampal, 1983))۔ 

    یہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ زبان کا معاملہ محض لسانی نہیں تھا، بلکہ طاقت و اختیار کا ایک بنیادی ہتھیار تھا جو آج تک پوری شدت سے کارفرما ہے۔

    بلاشبہ عصرِ حاضر میں عالمی علم اور بین الاقوامی روابط کی سب سے مؤثر زبان انگریزی ہی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق ہو یا ٹیکنالوجی کی ترویج، تعلیمی رجحانات ہوں یا عالمی تجارت، زیادہ تر شعبوں میں انگریزی کی حکمرانی دِکھائی دیتی ہے۔ دنیا کے ساتھ ہم قدم رہنے کے لیے اس زبان سے صرفِ نظر کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن غور طلب امر یہ ہے ترقی یافتہ قوموں نے انگریزی کو کس حیثیت سے اپنایا؟ انھوں نے اسے اپنا ذریعۂ تعلیم نہیں بنایا، اور نہ ہی اپنی علمی شناخت کا ستون قرار دیا۔ مثال کے طور پر چین نے 1978ء کے بعد معاشی اصلاحات کے دور میں جدید علوم کو تیزی سے چینی زبان میں منتقل کرنے کا وسیع پروگرام شروع کیا۔ (Ministry of Education, China, 1980s)

    جاپان نے بھی اپنے صنعتی انقلاب کے دوران سائنسی اور فنی مواد کے تراجم اپنی زبان میں کیے اور آج بیش تر یورپی ممالک اپنی مادری زبانوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ان ممالک نے عالمی زبانوں سے استفادہ ضرور کیا، مگر اپنی قومی زبانوں کو علمی ترقی کا محور بنائے رکھا۔ ان تاریخی تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم کی بنیاد ہمیشہ اپنی زبان پر ہی ہونی چاہیے، جب کہ انگریزی جیسے عالمی ذریعئہ ابلاغ کو صرف بیرونی علوم تک رسائی کے معاون کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے برصغیر کے ممالک، خصوصاً پاکستان میں، صورتِ حال اس کے برعکس رہی۔ یہاں انگریزی نہ صرف تعلیم کا بنیادی وسیلہ بنی، بلکہ سماجی وقار اور معاشی کامیابی کا معیار بھی اسی کی مہارت سے مشروط ہو گیا۔

    آج پاکستان میں زبان کا یہی نوآبادیاتی ورثہ طبقاتی نظامِ تعلیم کی صورت میں پوری شدت سے دکھائی دیتا ہے، جس کا ثبوت انگلش میڈیم اور اردو میڈیم اداروں کے درمیان پائی جانے والی گہری خلیج ہے۔ انگریزی ذریعۂ تعلیم والے نجی ادارے بہتر وسائل، تربیت یافتہ اساتذہ اور بین الاقوامی معیار کے نصاب سے استفادہ کرتے ہیں، جب کہ سرکاری (اردو میڈیم) اسکول وسائل کی کمی کے باعث پس ماندگی کا شکار رہتے ہیں۔ یوں ہمارا نظامِ تعلیم دو الگ دھاروں میں بٹ گیا ہے۔ ایک مراعات یافتہ طبقے کے لیے معیاری تعلیم اور دوسرے عام عوام کے لیے کم تر مواقع کی درسگاہیں۔ نتیجتاً تعلیمی معیار کے بجائے زبان دانی سماجی برتری اور پیشہ وارانہ کامیابی کا پیمانہ ٹھہر گئی ہے۔ ممتاز نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس صورتِ حال کو قومی شناخت کے بحران سے تعبیر کیا ہے۔ (Jalibi, 1990s) ہمارے نظام میں انگریزی تعلیم علم کے بجائے محض ایک آرائشی علامت“ کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔

    اس طبقاتی تقسیم کا ایک جلی مظہر وفاقی محکماتی مقابلے (CSS) کے امتحانات ہیں، جہاں انگریزی کے لازمی پرچوں میں ناکامی کی شرح 95 فی صد تک جا پہنچتی ہے (FPSC, Annual Report)۔

    یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ زبان کی یہ دیوار ہزاروں قابل امیدواروں کو مواقع دینے کے بجائے انھیں مقابلے سے باہر کردیتی ہے۔ اگر یہی امتحانات اردو یا دیگر قومی زبانوں میں منعقد کیے جائیں تو ممکن ہے کہ ملک کی قیادت کا مجموعی مزاج اور ساخت یکسر مختلف ہو۔

    انگریزی کی بالادستی کا اَثر صرف معاشی یا تعلیمی شعبوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس نے ہمارے فکری، ثقافتی اور نظریاتی اُفق پر بھی گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ زبان محض اِظہار کا وسیلہ نہیں، بلکہ تشکیلِ فکر کا ایک بنیادی ذریعہ ہے، جس کے ذریعے تصورات، زاویۂ نگاہ، ترجیحات اور اقدار افراد کے ذہنوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ مغربی نام نہاد لبرل اِزم، اِنفرادیت پسندی اور سرمایہ دارانہ سوچ انگریزی کے قالب میں اسی طرح آسانی سے ذہنوں میں سرایت کرتی ہے، جیسے ہوا سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ نیلسن منڈیلا نے بالکل ٹھیک کہا تھا:

    کسی غیرملکی زبان میں کہی گئی بات صرف ذہن تک پہنچتی ہے، جب کہ مادری زبان میں کہی بات دل میں اُتر جاتی ہے" (Mandela, 1994) ایڈورڈ سعید نے نوآبادیاتی زبان کی پالیسی کے ہمارے معاشرے پر گہرے منفی اَثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ استعمار کا سب سے مؤثر ہتھیار یہی ہے کہ محکوم اقوام کو اپنی زبان، اپنی تاریخ اور اپنے علمی طریقوں پر شک ہونے لگے:۔ (Said, 1978)۔ 

    ایسی ذہنی غلامی قوم کو فکری جمود، شناخت کے بحران اور سماجی انتشار کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ یونیسکو نے بھی متعدد مواقع پر زور دیا ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینا بچوں کی ذہنی نشوونما اور تنقیدی صلاحیتوں کے لیے ضروری ہے۔ (UNESCO, 2003)

    جب کہ غیرملکی زبان میں ابتدا ہی سے تعلیم دینے پر بچہ لسانی بھول بھلیوں میں اُلجھ کر علم کے اصل مقصد سے محروم رہ جاتا ہے۔ تعلیمی محقق اُپادھیائے کی تحقیق سے بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم پانے والے بچے علمی کارکردگی اور تخلیقی صلاحیتوں میں نمایاں بہتری دِکھاتے ہیں۔ (Upadhyay, 2003)

    ان تمام مسائل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انگریزی زبان کو یکسر ترک کر دیا جائے، کیوں کہ جدید دنیا سے قدم ملانے، تحقیق سے استفادہ کرنے اور نئی ٹیکنالوجی سمجھنے کے لیے انگریزی سے واقفیت ناگزیر ہے۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انگریزی کو اس کا صحیح مقام دیا جائے۔یہ علم کی بنیاد نہیں، بلکہ صرف علم تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ ہمیں انگریزی کو ایک عملی مہارت اور رابطے کی زبان کے طور پر ضرور اپنانا چاہیے، لیکن علم کی تخلیق، نظریہ سازی اور قومی تشخص کی آبیاری اپنی ہی زبان میں کرنی ہوگی۔ اردو بہ طور قومی زبان اور دیگر علاقائی زبانوں میں جدید علمی مواد کے تراجم، سائنسی کتب کی تیاری اور اعلیٰ تعلیم میں بتدریج مقامی زبانوں کا نفاذ ہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف آئینِ پاکستان کی شق 251 کی روح کے عین مطابق ہوگا، بلکہ حقیقی قومی ترقی کا ضامن بھی ثابت ہوگا۔ اسی حکمتِ عملی کی بدولت ہم بیک وقت عالمی برادری سے مربوط بھی رہیں گے اور اپنی علمی خودمختاری بھی قائم رکھ سکیں گے۔ جب تک زبان کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، تعلیمی اصلاحات، سماجی مساوات اور قومی خودمختاری کے تمام دعوے ادھورے رہیں گے۔

    انگریزی کے حوالے سے فیصلہ کن سوال یہی ہے کہ کیا یہ زبان علم کا دروازہ ہے یا طبقاتی دیوار؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بیک وقت دونوں کردار ادا کررہی ہے۔ فرق صرف استعمال کی نوعیت کا ہے، یعنی یہ کہ کوئی قوم اس زبان کو کس مقصد کے لیے اور کس انداز سے برتتی ہے۔ اگر اسے علمی ترقی کا ذریعہ بنایا جائے تو یہ یقیناً علم کا دروازہ کھولتی ہے، لیکن اگر اسے سماجی برتری کی علامت بنا دیا جائے تو یہی ایک بلند و بالا طبقاتی دیوار بن جاتی ہے۔ اَب انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم انگریزی کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔

    Share via Whatsapp