بچوں کے منفرد ادیب عبد الواحد سندھی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بچوں کے منفرد ادیب عبد الواحد سندھی

    نامور اور منفرد ادیب عبد الواحد سندھی کا یہ اسلوب ہمیں بچوں اور نوجوانوں سے مکالمے میں مدد دے گا دینی دعوت کے دلنشیں انداز واسلوب سے واقف ہو ں گے۔

    By نعمان باقر Published on Jan 01, 2020 Views 2495
    بچوں کے منفرد ادیب: عبدالواحد سندھی
    تحریر: نعمان باقر نقوی، کراچی

    سادہ،سلیس اور دلکش اسلوب کے حامل بچوں کے نام ور اور منفرد ادیب عبد الواحد سندھی کے بارے میں جانیں گے کہ وہ کیسےبچوں کے ذہن میں اپنے دل کش انداز سے مطالعے کی رغبت اورعمل کی تحریک پیدا کرتے ہیں؟  ان کا یہ منفرداسلوب بچوں اور نوجوانوں سے مکالمے میں مدد دے گا دینی دعوت کے دل نشیں انداز واسلوب سے واقف ہو ں گے۔اسلامی اصطلاحات کا مفہوم ،قرآنی تعلیمات اور سیرت کی اہمیت ایک نئے انداز میں سامنے آئےگی۔ 
    عبدالواحد سندھی آج سے 108 سال پہلے 1912میں  سندھ کے ضلع پنوعاقل کے گاؤں بھلے ڈنو میں پیدا ہوئے۔اس زمانے میں یہ سکھر ضلع میں شامل تھا۔سندھ  کے رہنے والے اردو کے اس صاحبِ طرز ادیب سے میرا تعارف بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب "اسلام کیسے شروع ہوا "سے  ہوا ۔
    اسلام کیسے شروع ہوا کا انتساب ان بچوں کے نام  جو اس کتاب کے پڑھنے کے بعد یہ ارادہ کرلیں کہ اپنے اچھے کاموں ،اچھی باتوں اور اپنی زندگی کے اچھے نمونے سے اپنے غیرمسلم پڑوسیوں پر ظاہر کردیں گے کہ اسلام لوگوں کے لیے رحمت ہے۔ اسلام دوسروں کی خدمت کرنے کا نام ہے۔ اسلام غریبوں ،مصیبت کے ماروں ،بھوکوں ،ننگوں اور اپاہجوں کی مدد کرنے کا نام  ہے۔اسلام گرے ہوئے لوگوں سے محبت کرنے اور ان کو اپنا بھائی بنانے کا نام ہے۔اسی کا نام اسلام پھیلانا ہے اور یہی اسلام ہم سے چاہتا ہے۔ جب ہم ایسا کریں گے ،اسلام آپ ہی آپ لوگوں میں پھیلے گا۔ اللہ تعالِی ہم سے خوش ہوں گے،پیارے رسول ہم سے خوش ہوں گے۔
    عبد الواحد سندھی کم سنی  میں یتیم ہوگئے، ابتدائی تعلیم گھوٹکی کے مشہور تعلیمی مرکز  "مدرسہ قاسم العلوم" میں حاصل کی۔ یہاں انہیں انگریزی پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے مولانا دین محمد وفائی کی مدد سے عبد اللہ ہارون اسکالرشپ حاصل کیا اور، 1922 میں ہندوستان کی قومی تعلیمی تحریک کے نام سے مشہور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں داخل ہوئے۔ جہاں انہیں  مولانا محمد علی جوہر ، ڈاکٹر محمد علی بجنوری ، خواجہ عبدالحئی  اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے اساتذہ ملے اورجامعہ کی آزادی پسند کھلی فضا میں قومی و ملی فکر کی تشکیل اور ترویج کے مواقع میسر آئے جس نے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ آپ کا دینی جذبہ جامعہ کے ماحول میں ایک خوبصورت اسلوب بیان میں ڈھل گیا۔
    جہاد اور مجاہد کسے کہتے ہیں ملاحظہ کریں:     
      اسلام میں جہاد کیوں ضروری ہے؟
    ہمارا پیارا دین ہم کوبہادر نڈر ارادے کا پکا اور کام کرنے والابنانا چاہتا ہے۔ مسلمان کا سب سے پہلا فرض یہی ہے کہ وہ سپاہی بنےمسلمان گھر کےاندر، گھر کے باہر، جنگ کے میدان میں، امن کی حالت میں، اپنے ساتھ، دوسروں کے ساتھ، بادشاہی تخت پر اور خاک کے بستر پر۔غرض ہرجگہ اور ہر حالت میں سپاہی ہے۔اس سپاہی کو اسلام کی زبان میں مجاہد کہتے ہیں۔ یعنی انسان میں جتنی اچھی صفتیں ہوسکتی ہیں، ان سب کے مجموعے کا نام مجاہد ہے۔ (اسلام کے مشہور سپہ سالار)
    آپ کی اکثر کتابوں میں بچوں کے نام معنون کی گئی تحریریں سلیس، سہل اور مؤثر پیغام ہیں۔ اوربچوں میں عمل کی تحریک پیدا کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے جامع تصور اور تاریخ اسلام کے اجتماعی  تصورات کی نمائندہ ہیں   
    جنگ بدر ایک انوکھی جنگ تھی آج تک ایسی جنگ دنیا میں نہ لڑی گئی ہوگی آپ پوچھیں گے کیسے ذرا غور سے سننا !بدر کی لڑائی میں باپ بیٹے کے مقابلے پر صف آراء تھااور بیٹا باپ کے۔یہ تھا اسلام سے محبت کا وہ گہرا جذبہ جس کے سامنے عزیز رشتہ دار کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔اسلام ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔اس لڑائی میں خدا نے مسلمانوں کو فتح دی اور مکے والوں کو شکست دی۔ سپاہیوں کا ایک ہی خیال تھا کہ اسلام کانام بلند ہواور اس کا بول بالا ہو 
    مولانا عبدالواحد سندھی عالم اور مصنف تھے۔ وہ اردو ، انگریزی، عربی اور فارسی میں مہارت رکھتے تھے۔طالب علمی کے وقت سے ہی لکھتے تھے۔انہوں نے جامعہ ملیہ کے رسالوں میں اردو میں تاریخی ، تحقیقی مضامین بھی لکھے تھے۔تقسیم ہند کےبعد پاکستان آگئے ، 
    ابتدا میں آپ کی تحریریں عبدالواحد جامعی کے نام سے چھپتی رہیں لیکن بعد میں مشہور عالم دین اور انقلابی رہنما مولانا عبیداللہ سندھی سے متاثر ہوکر عبدالواحد سندھی کے نام سے لکھنے لگے۔جامعہ ملیہ کے قیام کے دنوں میں مولانا عبیداللہ سندھی سے ایک ملاقات کے دوران ، مولانا سندھی رح نے ان سے پوچھا  "رسالہ جامع میں پٹھانوں کی حکومت کے بارے میں مضمون آپ نے لکھا ہے"  ان کے اثبات پرمولانا سندھی بہت خوش ہوئے۔مولانا عبید اللہ سندھی کی فکر سے متاثر ہوکرانہوں اسلام کے بلند تصورات کو  بچوں کے ذہن نشین کرانے کے لیے مؤثر اور دل نشین پیرایہ بیان  اختیار کیا۔
    "اب تم پوچھو گے قرآن پاک کیا  ہے؟ آؤ ہم بتائیں. ذرا دھیان دے کر سننا قرآن پاک ایک عزت والی کتاب ہے جو دنیا کے پالن ہار کی طرف سے اتاری گئی ہے اس میں کوئی جھوٹی بات نہیں ہے۔ قرآن روشنی ہے جو بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔قرآن مایوسی کو دور کرتا ہے، غریبوں کاسہارا ہے۔ قرآن غلام، پست اور بیمارقوموں کوبلندی اور طاقت بخشتا ہے، بےکسوں بے بسوں کے لیے مددگار ہے مردہ قوموں کو نئی زندگی دیتا ہے ایسی برکت والی کتاب کیسے اتری؟ اس کا حال آگے بتائیں گے۔ 
    قرآن پاک کیا سکھاتاہے،
    کے ذیل میں چند باتیں جو بچوں کی تربیت کے لیے مفید ہیں :
     (۱)   اللہ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ    
    (۲) نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر کرو 
    (۳  )عیب جوئی کے بجائے عیب پوشی کرو 
    (۴) بستر پر جانے سے پہلےاپنے روزانہ کےکاموں کا محاسبہ کرو
    (۵  )نماز باجماعت با ادب پڑھو
    (۶) رسول خدا کی زندگی کو اپنے لیے مشعل راہ بناؤ  
    (۷) زائد از ضرورت مال کو فوراً محتاجوں ،رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو دو مگر ان پر احسان مت جتاؤ۔
    مولاناعبدالواحدسندھی نےنہایت دلکش اور سادہ انداز بیان سے کام لے کر قرآن پاک کی خصوصیات کو بیان کیا ہے اور اس ذیل میں تاریخ اسلام کے اس دور کو ذہن نشین کرایا کہ جس عہد میں قرآن کی تعلیمات عملی شکل میں غالب ہوکر دنیا کے لیے دعوت فکر و عمل بن گئے  
     قرآن وہ کتاب ہے ،جس نے انتہائی جہالت کے زمانے میں نازل ہوکر ظاہری و باطنی روشنی پھیلائی ۔دنیا سے برائیاں دور کرکے علم و عدل ، تہذیب و تمدن ،نیکی اور پاکیزگی کا جھنڈا بلند کیا ۔
    قرآن وہ کتاب ہے ،جس کی شرح سے سینکڑوں علوم پیدا ہوئے جس کی تفصیل تم بڑے ہوکر تارِیخ کی بڑی بڑی کتابوں میں پڑھو گے۔
    قرآن وہ کتاب ہے ،جس نے دنیا میں سب سے پہلے بادشاہی اور بادشاہوں کی مخالفت کی ۔دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے جمہوری نظام پیش کیا اور دنیا نے وہ نظام خلافت راشدہ کے زمانے میں دیکھا۔
    قرآن سرمایہ داری کے بالکل خلاف ہے ۔قرآن دنیا کو مساوات کا پیغام دیتا ہے ،قران نے سب سے پہلے عورتوں کی عزت اور ان کے حقوق مردوں سے منوائے قرآن نے دنیا سے غلامی کو مٹایااور غلاموں کی آزادی کادروازہ کھولا ،قرآن وہ کتاب ہے جو ایسی تعلیم دیتی ہےجو بالکل فطرت کے مطابق ہے ۔
     سیرت رسول کا بیان :
    اسے مصنف نے تین مرکزی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ، رسول پاک کون تھے؟ کے عنوان سے ہے۔ اس میں بہت اختصار کے ساتھ آپ کی سیرت بیان کی گئی ہے۔ دوسرے حصے کا عنوان ہے: رسول پاکؐ کیسے تھے؟ اس میں آپؐ کے اخلاق حسنہ کا بیان ہے۔ تیسرا حصہ ،رسول پاکؐ نے کیا سکھایا؟ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ارکانِ اسلام کا مختصر بیان ہے۔ اس کتاب کی خوبی کا اندازہ ان کے مختصر پیش لفظ سے لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے:
    ’’میں نے یہ کتاب تمھارے لیے لکھی ہے اور اسے تمھارے ہی نام سے منسوب کرتا ہوں۔ رسول پاکؐ سب سے زیادہ تم بچوں کو چاہتے تھے اور تم بھی اپنے پیارے رسولؐ سے ضرور محبت کرتے ہوگے۔ مگر میاں، پیارے رسول سے محبت کرنے کا مطلب بھی سمجھے؟ آؤ ہم بتائیں۔ ان کے پیارے اسلام کو دنیا میں پھیلاؤ۔خدا تمھاری مدد کرے۔ آمین۔            
    پاکستان بننے کے بعد  15 نومبر1948 وزارت آبادی پاکستان کے زیر انتظام ، خبروں کے بلیٹن کا ترجمہ اردو اور سندھی میں شائع ہونے لگا۔ مولانا عبدالواحد سندھی اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ یہ ہفتہ وار شائع ہوتا تھا۔ جنوری 1950 میں اسی بلیٹن کو خصوصی علمی اور ادبی رسالے کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس کا پہلا پرچہ فروری 1950 میں مولانا عبدالواحد سندھی کی ادارت کے تحت سامنے آیا ، اس کے بعد اس نے ہر ماہ باقاعدگی سے اشاعت کرنا شروع کی۔ یہ ایک کارنامہ تھا۔ زندگی کی نئی تاریخ دراصل سندھی ادب کی تاریخ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سندھی ادب میں جو جمود پیدا ہوا اسے "نئی زندگی" نے توڑا اور مولانا نے سندھ میں نئے سندھی لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی وہ سندھی ادب کی تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی۔
    رشید بھٹی لکھتے ہیں:
    ہم عصر مصنفین اور ہمارے بعد میں آنے والےمعاصر ادبی گروہوں کی حوصلہ افزائی کی (یہان تک کہ  ایک مہربان استاد کی طرح لکھنے پر مجبور کیا )۔ یوں انہوں نے سندھِی ادب کوایک نئی زندگی بخشی ہے۔ دوسرے دوست اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں، لیکن میں اپنی ادبی قابلیت میں، میں مولوی صاحب کی قدر دانی، ہمت افزائی اور اساتذہ کی طرح ڈنڈے کے زورپرکام کرانے کے روئیے ہی کا احسان مانتا ہوں۔
    سندھی ادب میں خواتین افسانہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی مولوی صاحب کا سندھی ادب کی تاریخ میں ایک اہم مقام ہے۔ اس سلسلہ میں ثمیرا زریں، مہتاب محبوب اور رشیدہ حجاب کے ناموں کو شمار کیا جاسکتا ہے۔ان کے افسانے سب سے پہلے مولانا عبدالواحد سندھی نے ہی 'نئی زندگی' میں شائع  کیے۔
    مولانا عبدالواحد نے نہ صرف نئی زندگی رسالے کا آغاز کیابلکہ سندھی ادب میں بہترین و معیاری کتابوں میں اضافے کے لیے  نئی زندگی اشاعتی سلسلے کی آٹھ کتابیں جو سندھی ادب میں اہمیت رکھتی ہیں، جن میں سندھی ادب کے  نمائندہ مصنفین کی تحریریں محفوظ تھیں شائع کیں۔ یہ کتابیں (1) مہران کی لہریں (2) مہران کی موجیں (3)  مہران کے موتی (۴) شعراء کے سرتاج: شاہ عبد اللطیف بھٹائی (۵) منصور ثانی سچل رح (۶) سوبھوں سر گھرن (فتوحات سر مانگتی ہیں) ( ۷) ماک پنا رابیل۔ یہ کتاب بالترتیب سید حسام الدین راشدی ، ثمیرہ زرین ، خدیجہ خانم داؤد پوٹو اور عطا محمد حامی نےترتیب دیں تھیں. باقی سب کام مولانا عبدالواحد سندھی نے کیا " ریٹائرمنٹ کے بعد ، ا نہوں نے سندھی ادبی سوسائٹی کے میگزین 'ادیون' میں بھی کچھ عرصہ اپنا حصہ ڈالا۔
       عبدالواحد سندھی  بڑے انسان قومی کارکن اور صاحب طرز ادیب تھے۔ آپ کا انتقال 3 جنوری 1988 کو کراچی میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔
    Share via Whatsapp