نظم
: اہلِ ہند سے خطاب
شاعر
: عاصم حماد عاصمؔ۔ فیصل آباد
تم
نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
تم
نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
ہند
میں قحط و فقیری اوج پر جن کے سبب تھی
وہ
فقط برطانوی تھے، تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
کاٹ
کھایا تھا غزالوں کو جنھوں نے اِس خُتن میں
وہ
درندے مغربی تھے، تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
تفرقہ
کی خوں فشانی گُل دلوں پر کی جنھوں نے
سامراجی
سازشی تھے! تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
دھرم
سے کھلواڑ کر کے چاکری کر لی جنھوں نے
برہمن
اور مولوی تھے، تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
کنبۂ
امن و اماں! اہلِ حَکَم اپنے
یہاں کے
در
حقیقت یورپی تھے، تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
وہ
ہوئے “سر” کے خطابی، غیر کی کر کے غلامی
لیڈر
اپنے لندنی تھے، تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
غیر
کی امداد کا دھبّا
لگا جن کی جبیں پر
وہ
نواب و چودھری تھے، تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
سن
رکھو! اے جھوٹ پر پلتے ہوئے لوگو سنو تو!
جو
غلط تھے، وہ سہی تھے! تم نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
تم
نہیں تھے، مَیں نہیں تھا
تم
نہیں تھے، مَیں نہیں تھا