مطالعہ سے اکتاہٹ کیسی؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مطالعہ سے اکتاہٹ کیسی؟

    مطالعہ کرنا انسان کا ایک فطری تقاضا ہے اس میں اکتاہٹ پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یکسانیت ہے جسے آزاد مطالعہ ، اور فطری نشوونما سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

    By یاسر عرفات Published on Oct 03, 2022 Views 1120
    مطالعہ سے اکتاہٹ کیسی؟
    یاسر عرفات۔ ملتان 

    مطالعہ سے مراد ہے پڑھ کر کسی کے بارے میں جان پہچان حاصل کرنا۔"پڑھنا" یا مطالعہ ایک ایسا فطری عمل ہے جو کہ پیدائشی نابینا لوگ بھی اپنی انگلیوں کے احساس سے "بریل پرِنٹ" یعنی صفحے پر ابھرے dots کی ترتیب کو محسوس کرکے کر لیتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ نظر آنے والے الفاظ کی شکل و صورت اور ترتیب کو محسوس کرتے ہیں۔الفاظ کی ترتیب کے اس احساس کو ہم "پڑھنا" کہہ سکتے ہیں۔اور اس احساس میں اگر مفہوم شامل ہو جائے تو اسے مطالعہ کہہ سکتے ہیں۔مثلاً پاکستان کے دیہاتی کلچر میں صبح صادق کے وقت اماں جان، دادی امی یا نانی ماں قرآن پاک کو تکیے پہ رکھ کر صِرف "پڑھ" رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح نوجوان جب سرکاری نوکری کا اشتہار دیکھے تو اس پر موجود معلومات حاصل کرتا ہے،ذہن میں ان معلومات کو ناپتا تولتا ہے اور اس کے نتیجے میں کو ئی نا کو ئی ارادہ پیدا ہوتا ہے۔یہ"صرف پڑھنے"اور پڑھ کر جان پہچان حاصل کرنے کی دو چھوٹی سی مثالیں ہیں۔

    ویسے تو مطالعہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس کو حروف کی قید سے نکال کر جتنا چاہیں پھیلا سکتے ہیں، لیکن ہمیں اس کے اکتاہٹ اور بیزاری والے پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے دو حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
     پہلی قسم: با ضابطہ مطالعہ
    دوسری قسم: آزاد مطالعہ 
    پہلی قسم کا مطالعہ وہ ہے جو ہر مہذب معاشرے کے افراد کو سماجی دباؤ کی وَجہ سے کرنا ہی پڑتا ہے۔اور ہم پاکستان کے تعلیمی نظام میں "مار نہیں پیار" کے slogan کے ساتھ اس سماجی دباؤ سے گزر بھی چکے ہیں۔ مختلف معاشروں میں اس سماجی دباؤ کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ لیکن بنیادیں سب کی ایک سی ہیں۔
    بچوں کو نفسِ مطالعہ کے لیے پہلے حرف شناسی، چند عمومی الفاظ سے واقفیت اور ہندسوں کی پہچان کی مشق کروائی جاتی ہے۔ہر صحت مند بچہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق مشق کرتا ہے اور ان میں سے ہر ایک بچہ اپنی اس مشق کا کامیاب نتیجہ حاصل کرتا ہے۔اسی لیے ہمیں بالعموم نرسری اور پریپ کی کلاسز میں فیل/پاس ہونے کی ٹینشن دیکھنے کو نہیں ملتی۔گھنٹی بجنے کا انتظار اور چھٹی ہونے کی خوشی کا اس عمر میں نفسِ مطالعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ تعلق اگلی کلاسز میں بنتا ہے، جب مضامین میں فہم و فراست کا چیلنج سامنے آتا ہے۔

    ہر ملک میں پرائمری تعلیم کے بعد ثانوی اور اعلیٰ تعلیم ہوتی ہے،جس میں ریاضی کے اصولوں، سماجی تغیرات ، زبانوں اور مادی تغیرات کے اصولوں کا مختلف مضامین کی شکل میں درجہ بدرجہ مطالعہ کروایا جاتا ہے۔گویا دنیا میں حروف شناسی کے احساس سے لے کر فہم شناسی میں مہارت تک کا سفر ہر معاشرے میں ایک نظم و ضبط کے تحت چلتا رہتا ہے، جسے تعلیمی نظام کہتے ہیں۔اس نظام میں رہ کر جو مطالعہ کیا جاتا ہے، اسے ہم با ضابطہ مطالعہ کہہ سکتے ہیں۔ 

    مطالعہ کی دوسری قسم آزاد مطالعہ کی ہے۔یہ انفرادی نوعیت کا مطالعہ ہے۔ہر فرد یہ مطالعہ اپنی قوت ارادی اور اندرونی فیصلے سے کرتا ہے۔ہمارے اندر ایک ارادہ پیدا کرنے کے لیے مختلف طرح کی تحریکیں پائی جاتی ہیں۔مثلاً کھانا کھانے کی اندرونی تحریک (intrinsic motivation) کو ہی لے لیجیے،جسے ہم بھوک کے عنوان سے جانتے ہیں کھانا کھانے کے لیے بھوک کی تحریک، ہر بار ہمارا ارادہ بنواتی ہے۔لیکن یہ تحریک مختلف شکلیں بدل بدل کر آتی رہتی ہے اور ہم دستیاب وسائل میں سے طرح طرح کے کھانے کھاتے رہتے ہیں۔ ناشتے کی بھوک الگ ہوتی ہے، دوپہر کی بھوک الگ، رات کے کھانے کے وقت بھوک کا مطالبہ پھر بدل جاتا ہے، ہلکی پھلکی بھوک کا مطالبہ اور ہوتا ہے، اور زوردار بھوک کا مطالبہ کچھ اور، کبھی کسی کو پسندیدہ کھانا کھاتے دیکھ کر بھوک لگ جاتی ہے تو کبھی کسی ناپسندیدہ کھانے کا نام سن کر بھوک اُڑ بھی جاتی ہے،جس طرح کھانا کھانے کے عمل کے پیچھے اندرونی تحریک شکلیں بدل بدل کر کام کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح انفرادی مطالعہ کی تحریک بھی شکلیں بدل بدل کر کام کرنا چاہتی ہے۔جب تجسّس کی شکل ہو تو افسانوی اور معلوماتی مطالعہ کا رجحان بنتا ہے، ایسے ہی جب ذہنی آسودگی کی طلب ہو تو شعر و شاعری اور ادب سے متعلق مواد کی طرف attraction پیدا ہوتی ہے۔جب سیکھنے کا شوق (learning attitude) پیدا ہوجائے تو نظریات اور افکار کے مطالعہ میں دلچسپی ہوتی ہے، کسی شعبے یا مضمون سے بہت زیادہ وابستگی ہوجائے تو اس مضمون کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوجاتا ہے، اور اگر وظیفہ (scholarship)، یا گریڈ حاصل کرنے ہوں تو نصابی کتب کی طرف کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔

    عام طور پراساتذہ مطالعہ کرنے کو عادت بنانے سے جوڑتے ہیں۔اس کو خود پر نافذ کرنے کا درس دیتے ہیں اور نوجوانوں کو ان کی قوتِ ارادی کے حوالے کر کے چلے جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں نوجوانوں پر ایک کیفیت بھی طاری رہتی ہے، چند دن یا ایک time period تک مطالعہ ہوتا بھی ہے، لیکن پھر حالت بدل جاتی ہے۔ مثلاً جو معلومات حاصل کرنے کے لیے مطالعہ شروع کرتے ہیں وہ ایک وقت کے بعد معلومات سے معمور ہوکر مطالعہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔جو تعلیمی گریڈز یا سکالرشپ کے لیے مطالعہ کرتے ہیں وہ گریڈ یا سکالرشپ حاصل کرنے کے بعد مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں۔جو جذباتی فیصلے سے مطالعہ شروع کرتے ہیں وہ جذبات ٹھنڈے ہونے پہ مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں،جو نظریات و افکار سے سیکھنے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں وہ خود کو تربیت یافتہ سمجھنے لگ جائیں، تو مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے کسی نا کسی سطح پہ مطالعہ سے تعلق پھر بھی بنا رہتا ہے۔ مثلاً واٹس ایپ پہ میسجز کا مطالعہ،فیس بک پہ پوسٹوں کا مطالعہ، سڑک کے اطراف میں لگے کاروباری اشتہارات کا مطالعہ،دفتری کاغذات کا مطالعہ،اخبار کا مطالعہ وغیرہ۔ہم مطالعہ سے جڑے تو رہتے ہیں، لیکن جڑنے کا احساس نہیں رہتا۔ایک طلب سی پھر بھی رہتی ہےاور اس طلب کا زندہ رہنا بہت بڑی نعمت ہے۔

    ہمیں چاہیے کہ اس طلب یا احساس کی فطری تقاضوں کے تحت افزائش کریں،جیسے بھوک نہ لگنے کو بیماری سمجھ کر اس کا علاج تلاش کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر کے پاس جایا جاتا ہے۔ایسے ہی اگر مطالعہ سے بیزاری ہورہی ہو تو اس کا علاج تلاش کیا جائے۔مطالعے کے ماہرین کی صحبت اختیار کی جائے۔اس عمل کو کھانے پینے کے نظام کی طرح روز مرہ کی زندگی میں منظم شکل دی جا ئے۔ اگر انسان کو ہر روز ہر وقت ایک ہی طرح کا کھانا پیش کیا جائے، چاہے وہ اس کا من پسند ہی کیوں نہ ہو، ایک وقت آنے پر وہ اس سے اکتاہٹ کا شکار ہوجا ئے گا۔کچھ ایسا ہی حشر ہمارے تعلیمی نظام نے ہمارا کر رکھا ہے۔لیکن آزاد مطالعے کا آپشن ہمارے پاس ہر وقت موجود ہے۔جب ضرورت ہو اپنے شعبے، اپنے شوق، اپنی طلب، اپنے تجسس، اپنے رجحان سے متعلق مطالعہ کریں اور جب بھی یکسانیت کے نتیجے میں اکتاہٹ پیدا ہونے لگے تو مطالعے کا میدان بدل لیں۔لیکن اس طلب کو، اس احساس کو مٹنے نہ دیں۔اسے عادت کے درجے سے آگے لے کر جائیں، اسے زندگی کا حصہ بنائیں،جس عمل نے ذہنی و شعوری ترقی کا ذریعہ بننا ہے اور پوری زندگی ساتھ رہنا ہے۔ اس سے اکتاہٹ کیسی ؛
    Share via Whatsapp