لفظِ"اَزَل" کے مفاہیم، عملی اطلاقات اور وطنی تقاضا - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • لفظِ"اَزَل" کے مفاہیم، عملی اطلاقات اور وطنی تقاضا

    اَزَل کے معنی و مفہوم کی سمجھ پیدا کرنا

    By Muhammad Rizwan Ghani Published on Jul 02, 2024 Views 462

    لفظِ"اَزَل" کے مفاہیم، عملی اطلاقات اور وطنی تقاضا 

    تحریر :  محمد رضوان غنی آزاد ۔ میرپور آزاد کشمیر 

     

    لفظِ ازل کے معانی ؛ 

    ازل عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں :-

    ایسا زمانہ جس کی ابتدا نہ ہو، 

    مخلوقات کی پیدائش کا دن،

    آغازِ کائنات  

    قدیم زمانہ 

    یہ ایک ایسی فلاسفی ہے جو دنیا کے آغاز سے لے کر خاتمے تک  رہے گی، یعنی ایک ایسا دور، ایک ایسا وقت جس کی نہ شروعات ہوں اور نہ ہی انتہا ہو۔ یہ لفظ اپنی ذات میں یکتا و جامد ہے، نہ کسی دوسرے لفظ سے نکلا ہے اور نہ ہی کسی لفظ سے مل کر بنا ہے۔ اس لفظ اَزَل کو ہم آغازِ آفرینش سے اَبَدِیَّت تک کے معنیٰ میں استعمال کر سکتے ہیں۔

    عملی زندگی میں اطلاق 

    لفظِ ازل کی فلاسفی کو ہم اپنی زندگی پر لاگو کریں تو بہت سی باتیں ہیں جو ازل سے ہمارے ساتھ چلتی ہیں، جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کب ہمارے ساتھ جڑیں اور اکثر اوقات وہ ہماری زندگی کے اختتام پر بھی کسی نتیجے کا پیش خیمہ نہیں ہوتیں۔ لیکن بامقصد زندگی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر ایک لفظ اپنی ہیئت میں یکتا ہوسکتا ہے تو پھر ذاتِ باری تعالیٰ کی یکتائی (لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ) کے ثبوت کے طور پر اس کی حاکمیت کو کیوں قبول نہ کیا جائے اور اس سمت میں اپنی زندگی کو بامقصد کیوں نہ بنایا جائے۔ 

    6۔شُعرَا اور ادیب لوگ اس لفظ کو 'بیان صادق یا احتجاج (دلیل )' کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔

    اَزَل ہم اس وقت کو بھی کہتے ہیں، جب یہ ساری کائنات وجود میں آئی لیکن کب وجود میں آئی؟ اس کا پتہ نہیں، اس کے وجود کا سبب بھی رب کریم کی صفات کے ظہور کی صورت میں لکھ دیا گیا، جسے سمجھنا عام انسانوں کی عقل سے ماورا ہے۔ 

    لوح اَزَل میں لوح کا معنی تَحْتی ہے، جس پر لکھی تحریر کو مٹایا نہیں جا سکتا، یعنی ایسا دن جو اَزَل سے لکھا ہوا ہے اور وہ دن آکر رہے گا۔ 

    9۔اتنے وسیع معنی کی وَجہ سے اَزَل کے بہت سے مرکبات زبان وبیان میں استعمال ہوتے ہیں، جیسے اُسْتادِ اَزَل جو ہمیشہ کے لیے استاد ہو۔ یہ رب تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ ہی اس کی انتہا۔ وہ اپنی تمام صفات میں یکتا ہے، اس کے تعارف کے لیے اَن گنت انسانی زندگیاں بھی ناکافی ہیں۔ 

    بہ قول قاسم علی خان آفریدی (ادیب و بانی مسجد قاسم علی خان پشاور)

    میں نے اُسْتادِ اَزَل سے یہی سیکھا تھا سبق 

    آفریدی نہ کبھی یار کی چھوڑوں دہلیز 

    10۔ حسنِ اَزل سے مراد ہمیشہ رہنے والا حسن ہے، بہ قول جگر مراد آبادی

    حسن اَزَل کی شان دکھا کر چلے گئے 

    اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے 

    11۔خَیَّاطِ اَزَل جو روح کو جسم کا ساتھ عنایت کرے یا جسد خاکی کو روح سے سجانے والا ہو۔ یہ بھی رب تعالیٰ کی ربوبیت سے جڑے الفاظ ہیں کہ وہی پیدا کرنے والا، پالنے والا اور انسانی زندگی کو مہذب بنانے والا ہے۔

    12۔ شاعِرِ اَزَل یہ مرکب بھی رب تعالیٰ کی وحدانیت کو ظاہر کرتا ہے کہ جب کائنات پیدا بھی نہیں ہوئی تھی تو وہ ذات موجود تھی جس نے پوری کائنات کو ایک ترتیب دی۔

    13۔ صُبْحِ اَزَل یعنی ایسی صبح جس کو کبھی شام نہ ہو یا کہہ سکتے ہیں کہ مخلوقِ خدا کی پیدائش کا اول دن بہ قول جون ایلیا:       

    میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس 

     صُبْحِ اَزَل سے کوئی تقاضا کیے بغیر

    14۔پاکستانِ ازل سن 1947ء میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے عنوان سے مملکتِ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی، بعض لوگ دو قومی نظریہ کے حامل اس تقسیم کے قیام کو اس طرح پیش کرتے رہے کہ یہ ازل سے فیصلہ تھا کہ پاکستان اسلام کے لیے بنے گا اور بعض ریاست مدینہ سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے۔بعض حکمران اس کو اسلام کا قلعہ بنانے کی تگ و دو میں اپنے تئیں مختلف تجربات کرتے رہے، اس کا اندازہ ہمیں آج اس طرح ہوتا ہے کہ پاکستان مختلف نعروں کے ذریعے سے ازل سے اسلام کے نفاذ کی کوشش میں ہے، جس کی نہ تو شروعات ہو سکیں اور نہ ہی اس کی تکمیل ہو سکی، جنرل ضیاء الحق نے بھی بزعم خویش جب پاکستان میں اسلام کی بنیاد رکھی تو عورتوں کے ساڑھی پہننے پر پابندی لگا دی، اس وقت ملکہ غزل اقبال بانو نے کالی ساڑھی میں ملبوس ہو کر الحمرا ہال لاہور میں 'فیض میلے' کے موقعہ پر، فیض کی یہ نظم "ہم دیکھیں گے" پچاس ہزار کے قریب لوگوں کے مجمع میں پڑھی

    ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے 

    وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوح اَزَل پہ لکھا ہے

     مقصدِ مضمون و حاصلِ بحث 

     ازل کے معنی ومراد کو سمجھنا اور رب کائنات کی وحدانیت کا پیغام سمجھانا ہے کہ اس ذات باری تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں وہ ازل سے ابد تک دنیا و جہان کا خالق و مالک ہے۔ اس نے دنیا کو بنایا اور تمام مادی وسائل مہیا کیے، تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے، وہی ہے جو اس دنیا کو اور انسانوں کو بنانے والا ہے، وہی اس زندگی کو موت اور پھر دوبارہ زندگی دینے پر قادر ہے۔ اس کی دی ہوئی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عملی اظہار بذریعہ 'غلبۂ دین اسلام' ہی ممکن ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی ناہمواری کی کوئی جگہ نہیں۔ نظامِ الٰہی ہی ہماری نجات کا واحد ذریعہ ہے جو ازل سے ابد تک موجود رہے گا۔اگر ہم نظام الٰہی کا نفاذ نہیں کرتے تو وہ قادر ہے کہ وہ دیگر اقوام سے بھی اپنا کام لے سکتا ہے۔ اللہ  تعالیٰ ہم سے کام لے اور ہمارا حامی وناصر ہو آمین یارب العالمین

    Share via Whatsapp