انگریزی زبان ترقی کا نشان ایک پرانا سوال ؟
انگریزی زبان کے فوائد اور نقصانات پاکستان کے تناظر میں اور بر عظیم میں انگریزی زبان کی تاریخ
انگریزی زبان ترقی کا نشان ایک پرانا سوال ؟
حذیفہ بٹ۔ ناروال
زبانیں
زبان انسانوں کی ترقی، رابطے اور علوم و فنون کی پہچان، فطرت کی آواز، انسانیت کے ارتقا کےبنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب عربی 300 برس تک یورپ کی علمی زبان رہی اور باقی دنیا میں اس بات کو 1400 سال ہوچلے ہیں۔ آج انگریزی کا جو چرچا ہے اور اسے ہم ترقی کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، انھیں معلوم نہ ہو کہ نارمن قوم کے قبضے کے زمانے میں انگریز انگریزی میں دعا مانگنا بھی عیب جانتے تھے اور ایسے شخص کو حقارت سے دیکھتے تھے ۔
1838ءمیں لارڈ میکالے کی پالیسی کی روشنی میں جب فارسی کی جگہ انگریزی دفتری زبان بن گئی تو برعظیم کی تعلیم یافتہ اکثریت جاہل قرار پائی۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے تاریخی علوم و فنون سے محروم ہوتے چلے گئے ۔
اس کے مقابلے میں برطانوی حکومت میں یہ طے کیا کہ جو انگریزی نہیں سیکھے گا، اسے نوکری سے نکال دیا جائے گا، یا نوکری اسے ہی ملے گی، جسے انگریزی آتی ہے۔ یہی وَجہ ہے جو انگریزی کو قومی زبان تسلیم کرنے میں رکاوٹ ہے۔
شبلی نے اپنے ایک مضمون میں پہلی صدی ہجری میں عربی زبان کے پھیلنے کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں اور علوم تیزی سے پھیل رہے ہیں اور تمام علوم پر عربی زبان کی مہر لگی اور حکومت بےپرواہ ہے، تعلیم آزاد ہے۔
تاریخی پس منظر
انگریزوں سے پہلے، علاقے کے لوگ بنیادی طور پر اپنی مقامی زبانیں بولتے تھے اور انتظامیہ کی زبانیں فارسی اور عربی تھیں( لیکن محض ان کی وَجہ سے کسی کو پڑھا لکھا يا ان پڑھ تصور نہیں کیا جاتاتھا) یہ زبانیں سائنس اور فن کی زبانیں سمجھی جاتی تھیں۔تاہم، انگریزوں کی آمد اور ان کے بعد ہندوستان میں نوآبادیات کے ساتھ، انگریزی کو انتظامیہ، تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کی زبان کے طور پر نافذ کر دیا گیا۔ یہ مسلط نوآبادیاتی ایجنڈے کا حصہ تھا، جس کی عکاسی "سفید آدمی کے بوجھ" کے نظریے سے ہوتی ہے، جس نے تجویز کیا کہ یہ یورپی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی کالونیوں کو اپنی ثقافت اور زبان دے کر مہذب بنائیں۔
آزادی کے بعد کا منظرنامہ
1947ء میں تقسیم کے بعدجس کی وَجہ سے دو آزاد ریاستیں، ہندوستان اور پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ دونوں ممالک نے انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر برقرار رکھا۔ پاکستان میں حکومتی، قانونی اور تعلیمی ترتیبات میں انگریزی کا استعمال جاری ہے۔آزادی کے بعد قومی زبان میں علوم و فنون کی اشاعت اور تعلیم و تربیت، نیز اردو کو دفتری زبان بنانے کا سوال گزشتہ 77 سالوں میں متعدد بار قومی افق پر ابھرا کمیشن بنے، دستورمیں طے ہوا حق تسلیم کیا گیا۔ عرصہ اور مراحل طے ہوئے، لیکن عمل درآمد نہ ہوسکا۔
پاکستان میں انگریزی کے استعمال کو کم کرنے کی پالیسیاں
پاکستان میں انگریزی کے استعمال کو کم کرنے اور مقامی زبانوں کو فروغ دینے کے لیے کئی برسوں کے دوران مختلف پالیسیاں تجویز کی گئیں، لیکن ان پالیسیوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا:
1۔ 1973ء کا آئین پاکستان: آئین نے اردو کو قومی زبان قرار دیا اور یہ شرط رکھی کہ پندرہ سال کے اندر اندر اسے سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔ تاہم اس منتقلی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کیا گیا ہے اور انگریزی سرکاری اور تعلیمی دائروں میں رائج ہے۔
2۔ 1980ء کی دہائی میں زبان کی اصلاحات: جنرل ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی اصلاحات کے ذریعے اردو کو فروغ دینے کی کوششیں کی گئیں۔ اردو کو مختلف تعلیمی اور انتظامی ترتیبات میں انگریزی کی جگہ لینا تھی، لیکن اس پر عمل درآمد متضاد تھا اور انگریزی پر انحصار کرنے والے مختلف شعبوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مقتدرہ قومی زبان نے دفتری زبان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کتابیں شائع کیں۔مشرف دور میں کمپیوٹر کو مکمل اردو میں منتقل کرنے کے لیے ادارہ بنا ۔ اس ادارے میں کام ہوا، کی بورڈ بنا مشینی ترجمہ کا سافٹ ویئر بنا۔ پی ڈی ایف تصویر کو تحریر میں منتقل کرنے کا مرحلہ طے ہوا۔
3۔قومی تعلیمی پالیسی 2009ء: اس پالیسی کا مقصد انگریزی کو بتدریج اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ پرائمری سطح تک ذریعہ تعلیم کے طور پر تبدیل کرنا ہے۔ تاہم، لاجسٹک چیلنجز اور انگریزی کے قائم کردہ غلبے کی وَجہ سے، پالیسی کو مؤثر طریقے سے عملی جامہ پہنایا نہیں جا سکا۔
4۔سپریم کورٹ کی ہدایات (2015ء): سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو ہدایت کی کہ آئینی تقاضے کے مطابق اردو کو بہ طور سرکاری زبان نافذ کیا جائے۔ ان ہدایات کے باوجودعمل درآمد سست اور نامکمل رہا ہے۔کئی سرکاری اور تعلیمی سیاق و سباق پر انگریزی کا غلبہ جاری ہے۔
ان سبھی پالیسیز کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ نظام ہی اسے جس طرح ہے ویسے کا ویسے ہی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
آج انگریزی کا کردار:
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انگریزی سائنس اور عالمی مواصلات کی زبان ہے۔سائنسی علم، عالمی منڈیوں اور بین الاقوامی سفارت کاری تک رسائی کے لیے اس کے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اقوام عالم اپنی قومی زبان ہی کے ذریعے یہ سفر طے کر رہی ہیں ، یہ تسلیم کرنا اہمیت رکھتا ہے کہ انگریزی میں مہارت کسی کی عقل یا صلاحیتوں کا پیمانہ نہیں ہے۔
اور بہ قول ڈاکٹر ابولیث صدیقی انگریزی زبان کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس میں محض 16 ہزار الفاظ تھے اور تو اور جگاڑ کا لفظ بھی انگریزی زبان کا حصہ ہے ۔آج ہمارے ملک میں اردو میں یونیورسٹی کی سطح تک کا نصاب موجود ہے۔ بین الاقوامی تقاضوں کو ہم نبھا سکتے ہیں ۔اس کے لیے قومی ویژن کی ضرورت ہے۔ اور تو اور صوبہ سندھ میں میٹرک تک سندھی زبان میں تعلیم دی جاتی رہی ہے ۔
ہر بچے کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے مادری زبان میں تعلیم دی جائے، جس کے نتیجے میں خود اعتمادی اور اپنے ماحول سے آگہی پیدا ہوتی۔ جہاں تک غیرملکی زبانوں کی مہارت کی ضرورت ہے تو اس کے تقاضے نبھانے کے لیے جدید آلات اور وسائل سے ضلعی سطح پر ادارے قائم کرکے نوجوانوں کی صلاحیت اور استعداد بڑھائی جاسکتی ہے ۔
تعلیم میں غیر ملکی زبان کےاستعمال کے نقصانات:
ماہرینِ تعلیم کے نزدیک غیرملکی زبان کا سیکھنا ابتدا میں ایک اضافی بوجھ تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ ان کے لیے سیکھنے کے عمل کو سست کر سکتا ہے۔اپنے ملک میں غیر ملکی زبان میں تعلیم اپنے ثقافتی ورثہ سے رابطہ منقطع کرتی ہے۔ اور ان میں خود داری کے بجائے مرعوبیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کا نتیجہ ناقص تعلیمی کارکردگی اور خوداعتمادی میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
مقامی زبانوں کا خاتمہ:
تعلیم اور دیگر شعبوں میں انگریزی کا غلبہ مقامی زبانوں کے خاتمے کا باعث بن رہا ہے۔ بچے انگریزی کو اپنی مادری زبانوں اور قومی زبان پر اہمیت دیتے ہوئے بڑے ہو تے ہیں، جس سے طبقاتیت فروغ پارہی ہے اور قوم کا ایک موثر طبقہ قومی تقاضوں سے بیگانہ غلامانہ روش کے ساتھ پروان چڑھ کر ملک و قوم پر بوجھ میں اضافہ کررہا ہے ۔
طرزعمل کا اثر:
بنیادی طور پر غیرملکی زبان میں تعلیم یافتہ بچوں کو شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔کیوں کہ وہ اپنی ثقافتی جڑوں سے بیگانگی محسوس کر تے ہیں اور دوسر ی جانب غیرملکی بھی انھیں قبول نہیں کرتے ۔