پاکستان میں نوجوان مایوسی کا شکار کیوں، کیسے اور اس کا حل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان میں نوجوان مایوسی کا شکار کیوں، کیسے اور اس کا حل

    نوجوان نسل ایک معاشرے کو تبدیل کرنے کی کیا طاقت رکھتی ہے

    By محمد قاسم Published on Jul 24, 2023 Views 1374

    پاکستان میں نوجوان مایوسی کا شکار کیوں، کیسے اور اس کا حل

    تحریر:محمد قاسم، کامونکی


    تعارف

    نوجوان کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس کے نوجوان پر ہوتا ہے۔ نوجوان میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی طاقت اور قوت پیدا کی ہے کہ وہ کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خواہ وہ معاشرہ زوال پذیر ہی کیوں نہ ہو۔ نوجوان معاشرے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ نوجوان کے بغیر کوئی ایسی طاقت نہیں جو کسی بھی معاشرے کو تبدیل کر سکے۔ 

    عصری تعلیم کا دورانیہ

    پاکستان کا تعلیمی نظام  1835ء کےبرطانوی تعلیمی ایکٹ کے تحت چل رہا ہے، جس کا بانی لارڈ میکالے ہے۔ انھیں برطانیہ نے ایک ایسا کام سونپا کہ وہ اس برصغیر کے تعلیمی نظام کو بدل کر ایسا تعلیمی نظام لائے، جس میں تعلیم فارسی اور سنسکرت کے بجائے انگریزی میں دی جائے۔ نتیجے کے طورپر یہ تعلیم حاصل کرنے والے شکل و صورت کے لحاظ سے تو ہندستانی ہوں، مگر سوچ کے اعتبار سے برطانوی مفادات کے محافظ ہوں ۔ پاکستان میں جب ایک بچہ اپنی تعلیم کا آغاز کرتا ہے تو چھوٹی عمر میں ہی کتابوں کا ایک بوجھ اس پر ڈال دیا جاتا ہے،جس کی وَجہ سے وہ جسمانی و ذہنی کوفت میں مبتلاہو جاتا ہے۔ آٹھ سے دس کتابوں کا بوجھ اس سے ذہنی سکون چھین لیتا ہے ۔ جب بچہ اپنی تعلیم میں آگے بڑھتا ہے تو اسے طبقاتی نظام میں اُلجھا دیا جاتا ہے، پاکستان کا تعلیمی نظام طبقاتیت پر مبنی ہے۔ عام بندے کے لیے گورنمنٹ سکول جس میں پوری سہولیات بھی میسر نہیں ہے۔ والدین بھی ایسے سکولز میں پڑھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر کوئی والدین اچھی خاصی انکم کماتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو ہائی فائی سکول سے تعلیم حاصل کرواتے ہیں۔ جب وہ ان سکولوں سے نکلتے ہیں تو وہ دوسرے بچوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں سکولز سماجی تقسیم پیدا کیے ہوئے ہیں، جن کا مقصد صرف پیسے کمانا ہے۔ کوئی تعلیم یافتہ یا ہنر مند بنانا نہیں۔ اس سرمایہ پرستی کے سسٹم نے ہمارے ملک میں ہر شعبے میں تقسیم در تقسیم پیدا کی ہوئی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے ملک میں ہر بچے کے لیے یکساں تعلیم ہوتی۔ ہر ایک کے لیے یکساں نصاب ہوتا، تو پھر یہ تقسیم کیوں؟ 

    ہمارے ملک میں وہی پرانی تعلیم دی جا رہی ہے نہ ہمیں کوئی جدیدعصری تعلیم دی جاتی ہے اور نہ ہمیں کوئی فکری اور شعوری تعلیم دی جاتی ہے۔ پاکستان کا سارا امتحانی نظام رَٹہ سسٹم پر مبنی ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کو صرف نمبروں کے پیچھے لگایا ہوا ہے،اس کے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی ہےکہ بس آپ نمبر لے لو تو آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ نوجوان کو نہ قومی تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور نہ بین الاقوامی سطح کا شعور۔ پاکستان میں جو نوجوان زیادہ پڑھ جاتا ہے وہ عاجزی کی جگہ غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے۔پاکستان میں یونیورسٹی سے نکلنے والا نوجوان پریکٹیکل لائف میں زیرو ہوتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام نوکر پیدا کرتا ہے، لیڈرشپ نہیں۔ 

    مذہبی تعلیم کا دورانیہ

    مذہبی تعلیم کے حوالے سے بھی اگر پاکستان میں جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی سرمایہ داری پر مبنی سسٹم نے تقسیم پیدا کی ہوئی ہے۔مذہبی پس منظر کانوجوان جب کسی مدرسے سے نکلتا ہے تو وہ صرف اپنے فرقے کی بات کرتا ہے۔ دوسرے فرقے سے وہ نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔آٹھ سال کا درس نظامی پڑھنے کے بعد بھی وہ اسلام کے جامع نظام فکر سے غافل رہتا ہے۔ اس کے اندر بھی دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں قومی اور بین الاقوامی سطح کا شعور پیدا نہیں کیا جاتا۔ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کی اپنی ہی دنیا ہے اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دین کی اہمیت نہیں معلوم ۔ دونوں ایک دوسرے کو غلط کہہ رہے ہوتے ہیں۔ 

    پروفیشنل زندگی

     جب نوجوان اپنی پریکٹیکل لائف میں آتا ہے تو اسے معاشرے میں جھوٹ، بدامنی، فراڈ، فریب، دو نمبری اور دھوکا ملتا ہے۔ ان سب چیزوں سے تنگ آکریا تو وہ خودکشی کر لیتا ہے یا پھر اپنے پیارے وطن پاکستان کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلا جاتا ہے اور اپنی صلاحیتیں دوسرے ملکوں میں استعمال کرتا ہے اور دوسرے ممالک کو ترقی دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں 60 فی صد سے زائد نوجوان ہیں،جسے یہ سسٹم کچھ مثبت کام کرنے نہیں دیتا وہ اسے نہ شعور دیتا ہے اور نہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے سوچنے دیتا ہے۔ یہ سب مسائل سرمایہ داری نظام نے ہی پیدا کیے ہوئے ہیں۔پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بے تحاشہ نفع کی ہوس میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کولالچ خودغرضی جیسی بداخلاقی میں مبتلا کرکےقومی اقدار کی پامالی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 

    پاکستان کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو ضائع نہ کریں اور ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ ان کے لیے انڈسٹری کے موقع فراہم کریں۔ 

    نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی اجتماعیت کا حصّہ بنیں جو شعور کو بلند کرتی ہو، جو کسی مفاد سے بالاتر ہو اور جس کا مقصد صرف انسان دوستی اور خدا پرستی ہو۔

     اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو شعور عطا فرمائے اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ آمین!

    Share via Whatsapp