پاکستانی میڈیا کی حقیقت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستانی میڈیا کی حقیقت

    ایک آزاد اور جمہوریت پسند سماج میں میڈیا عوام کے مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

    By Zubair Iqbal Published on Jul 18, 2022 Views 904
    پاکستانی میڈیا کی حقیقت 
    تحریر:زبیر اقبال۔ راولپنڈی 

    ایک آزاد اور جمہوریت پسند سماج میں میڈیا عوام کے مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔معاشرے میں انسانوں کو پیش آنے والے مختلف حقیقی مسائل کی نشان دہی کر کے ان کے متعلقہ انتظامی اداروں کو آگاہ کرتا ہے۔ تاکہ وہ بروقت ان مسائل سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی بنائیں۔اسی طرح عوام کو باشعور اور باصلاحیت بنانے اور ان کے افکاروخیالات کو پروان چڑھانے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے۔
    لیکن یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ایک معاشرے کا میڈیا آزاد اور خودمختار ہو۔ حقیقت پسند ہو اور مرعوب نہ ہو ۔بکا ہوا یا کسی کے زیراثر میڈیا حق اور سچ چھپائے گا۔ اور وہ بتائے گا جو اسے خریدنے والے نے کہا ہو۔ مثال کے طور پہ اگر آج پاکستان کا بکاؤ میڈیا سو یا دو سو سال پہلے ہوتا تو برٹشر اسے خرید لیتے اور عوام کو یہ یقین دلا دیا جاتا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہمارے لیے کتنی فائدہ مند ہے اور معاشرے کی ترقی کے لیے کیسے کردار ادا کر رہی ہے۔لہذا میڈیا اگر آزاد نہیں ہے یا کسی کے اثر سے پاک نہیں ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ اپنا فرض ایمان داری سے نہیں نبھا رہا، بلکہ غلط انفارمیشن کا کاروبار کر رہا ہے۔
    ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پوری دنیا کے  180 ممالک میں سے پاکستانی میڈیا کا نمبر  157 ہے۔اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں آزادی صحافت کس درجے پہ کھڑی ہے۔ دوسرے اداروں کی طرح صحافت بھی کاروبار بن چکا ہے۔ نہ کہ ذمہ دارانہ دانش ور ی کا مظہر۔ ہمارے میڈیا کے چینلز مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔اس طرح سے وہ جو انفارمیشن دیتے ہیں وہ اس پارٹی کی خواہش کے مطابق ہوتی ہے۔ لہذا سیاسی پارٹیاں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے میڈیا کی گاہک ہیں اور کوئی اپنے گاہک کے خلاف نہیں جاسکتا۔
    دوسرے ملکوں میں سوشل میڈیا پہ اگر کوئی غلط خبر پھیل جائے تو وہاں کا قومی میڈیا اس خبر کی تصدیق کرکے اسے غلط قرار دیتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے، یہاں سوشل میڈیا سے خبر کے حق اور سچ کا پتہ لگایا جاتا ہے۔
    آپ کے ملک کے بڑے بڑے چینلز ٹاک شوز کراتے ہیں، جس میں مختلف پارٹیز کے لیڈروں کو بلا کر ان کو آپس میں باہم دست و گریباں کرا کے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں اور جو صاحب زیادہ جذباتی ہو یا زیادہ زوردار لہجہ میں بات کرے تو وہ اس چینل کا مستقل تجزیہ نگار بن جاتا ہے۔ 
    حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا کہ جزوقتی مسائل میں قوم کو الجھا دیا جاتا ہے، تاکہ سامعین حقیقی مسائل کے شعور و ادراک سے آراستہ نہ ہوسکیں۔ہمیں یہ تو بتایا جائے گا کہ انڈیا تمھارا دشمن ہے اور انڈیا کے خلاف مختلف نعرے بھی لگائے جائیں گے، لیکن یہ کبھی نہیں بتایا جائے گا کہ امریکا کی غلامی سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔
    اب خود اندازہ لگائیں کہ کتنے ایسے مباحثے ہورہے ہیں، جس میں غربت، بھوک اور بے روزگاری ختم کرنے کا حل بتایا جارہا ہو۔ 
    انٹرٹینمنٹ کےنام پہ قوم کو جگتوں پہ لگا دیا گیا ہے اس لیے کہ ایسے پروگرامز کی ریٹنگز زیادہ ملتی ہے، جس کی وجہ سے مہنگے اشتہار ملتے ہیں۔آپ مختلف چینلز کا ڈیٹا اٹھا کے دیکھ لیں۔main stream channels  سے زیادہ ریٹنگ ڈراموں اور دوسرے Entertainment چینلز کی ہے۔تو چینلز مالکان کا بھی زیادہ فوکس  Entertainment پروگراموں کی طرف ہے۔اس لیے مین چینلز کے پروگراموں کو بھی جذباتی مباحثوں کے ذریعے یہ کام بہ خوبی سرانجام دینے پر لگایا جارہا ہے ۔
    مختصر یہ کہ آج ہمارے نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارا میڈیا کس طرح ہم تک سچی اور کھری بات پہنچانے سے قاصر ہے۔کس طرح اسے با شعور ہونے کے بجائے بے شعور بنا رہا ہے اور اسے بے وقوف بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کی عقلی صلاحیتیں بڑھانے کے بجائے اسے عقل سے ہی عاری بنا رہا ہے۔ 
    آج ہماری قوم کو باشعور اور با صلاحیت نوجوان قوت کی ضرورت ہے تو ایسے میں نوجوانوں کو چاہیے کہ ایسی باشعور اجتماعیت کا حصہ بنیں، جہاں اسے حقیقی مسائل اور ان کے حل کا مکمل پروگرام دیا جائے، اور اس میں قیادت اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ تاکہ اپنی قوم کو ان مسائل سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکے۔ اسی لیے اہل دانش کا قول ہے "نادان دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے"۔ 
    آج اس نظامِ ظلم کی ساری قوتیں قوم کے نادان دوست تیار کرتی ہیں۔ دشمن اپنے ہتھیار چلانے کے بجائے قوم کی باصلاحیت قوت کو پروپیگنڈا کے زور پر بے شعور بنا کر اپنے مفادات میں استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ہمارے نئی نسل کو دشمن اور دوست کافرق قائم کرنا ہے اور دشمن کے پھیلائے ہوئے جال میں نہیں پھنسنا۔ اور لباس خضر میں موجود رہزنوں سےباخبر ہوکر ان کی چالوں سے بچناہے-
    Share via Whatsapp