علی عبداللہ کا خواب
خواب : جس نے علی عبداللہ کی کایا پلٹ دی
علی عبداللہ کا خواب
تحریر: اسد اقبال ۔ کراچی
علی عبداللہ ایک خوشحال گھرانے سے تھا۔ان کے ہاں کوئی بھی مانگنے والا آ تا تو خالی ہاتھ نہ جانے
دیتے۔دینی جذبے کے تحت مذہبی اور فلاحی
تنظیموں کی مالی اعانت بھی کرتے رہتے تھے۔ رمضان المبارک کی ایک رات علی عبدا للہ خود
کو میدان حشر میں دیکھتا ہے۔جہاں لوگوں کے کیے گئے اعمال و کردارکی جانچ ہورہی ہے۔ خرچ
کئے گئے مالوں کا حساب کتاب ہو رہا ہے۔دور جہنم کی آگ کا الاؤ دہک رہا ہے ۔ چیخ و
پکار کی آوازیں وحشت طاری کر رہی ہیں۔نفسی نفسی کا ماحول ہے۔ علی عبداللہ ا پنےانجام کے متعلق سوچ کر پریشان ہو رہا ہے۔ اتنے
میں دو فرشتے اسے اپنی طرف آتے دکھائی
دیتے ہیں۔ قریب پہنچ کر ایک فرشتہ دوسرے فرشتے سے کہتا ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ٹھہرا
ہے۔ اسے پکڑ کر جہنم کی طرف چل دیتے ہیں ۔
علی عبداللہ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ بھئی کس جرم میں جہنم میں پھینک رہے ہو، مجھے
میراجرم تو واضح کرو۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اللہ نے تمھیں مال و دولت کی نعمت سے
نوازا تھا لیکن تمہارے مال سے دنیا میں
انتشار اور فساد کو فروغ ملا۔
علی عبداللہ خود کو ان کی گرفت سے چھڑانے
کی کوشش کرتا ہے اور زور زور سے پکارتا ہے"اے عادل بادشاہ، اے مظلوموں کے
شہنشاہ، میری پکار سنو۔ میں ایک بے گناہ
انسان ہوں، میں نے ہمیشہ اپنا مال تیری راہ میں ہی خرچ کیا، کبھی کسی
انتشار اور فساد کا حصہ نہیں بنا ۔ اے انصاف کرنے والے مجھے انصاف دلائیے"
"رک جاؤ میرے
فرشتو! " ایک جلال بھری آواز ابھرتی ہے۔ فرشتے ایک دم سے رک جاتے ہیں۔ پھر
وہی آوا ز آتی ہے " آج احتساب کا دن ہے۔ آج کے دن کسی سے کوئی زیادتی نہیں ہو
گی۔ جس نے ایک تنکے برابر بھی نیک عمل کیا ہو گاوہ اس کا پورا پورا بدلہ پائے گا"۔ چند ساعتوں
کی خاموشی کے بعد پھر آواز آتی ہے" اے میرے فرشتو! میرے ا س بندے کو مطمئن کیا جائے۔ جب تک میرا
بندہ میرے انصاف سے مطمئن نا ہو کوئی سزا نافذ نہ کی جائے"
فرشتےاپنی سمت بدلتے ہیں اورعلی عبداللہ کو لے کر ایک بڑی سی سفید عمارت کا رخ کرتے
ہیں۔ عمارت میں داخل ہوتے ہیں جہاں ایک
بڑی سی اسکرین لگی ہوتی ہےاور ایک بارعب فرشتہ بیٹھا ہوتا ہے۔
فرشتہ : اپنا نام بتاؤ ۔
علی عبداللہ: میں علی عبداللہ ہوں اور میں
اپنے احتساب سے مطمئن نہیں ہوں۔
فرشتہ: آپ تسلی رکھیے ۔ آج ہر ایک کو ضرور مطمئن کیا جائے گا۔
علی عبداللہ: میں عادل بادشاہ کے عدل پہ
پورا پورا یقین رکھتا ہوں۔
فرشتہ: جناب بتائیے آپ نے اپنا مال کہاں
کہاں خرچ کیا۔
علی عبداللہ: میں نے جہاد کرنے والوں کی
مالی اعانت کی۔ میں نے دین پھیلانے والوں کے ساتھ مالی تعاون کیا
فرشتہ: درست فرمایا آپ نے۔ اب ذرہ سامنے پردہ
اسکرین پہ اپنے خرچ کیے گئے مال سے انجام
پانے والے اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھو۔
سکرین پر ویڈیو چلتی ہے، فائرنگ اور بم
پھٹنے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ عبادت گاہوں، اسکولز، ہسپتال اور بازاروں میں بم
پھٹ رہے ہیں۔ دور دور تک لاشیں ہی لاشیں
ہیں اور جگہ جگہ انسانی گوشت کے لوتھڑے نظر آ رہے ہیں۔ معصوم سا بچہ اپنے زخمی اور
لہولہان باپ کے سینے سے چمٹا ہوا ہے۔ دل دہلا دینے والی چیخ و پکار اور رونے کی
آوازیں سنائی دے رہی ہے۔ علی عبداللہ یہ حالت دیکھ کر سکتے میں آ جاتا ہے۔پھر اس
کی اسکرین پہ نظر پڑتی ہے تو کیا دیکھتا ہےکہ گردو غبار سے اٹے معصوم بچے،لولے
لنگڑے نوجوان ، سوجی ہوئی آنکھوں والے
بوڑھے مرد عورتیں جھولیاں پھیلائے روتے ہوئے دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔جب وہ ان کی آوازوں
پر غور کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ رو رو کر بددعائیں دے رہے ہیں کہ اے
طاقتور بادشاہ تیرے نام پہ کچھ لوگوں نے دنیا کو جہنم بنا دیا۔ ہم بچوں کو یتیم کر
دیا۔ ہم نوجوانوں کو اپاہج بنا دیا ۔ ہم بوڑھے والدین کا سہارچھین لیا۔ اے ظالموں
کی گرفت کرنے والے بادشاہ، قیامت کے روز اِن کی پکڑ فرمانااور اُن کی
بھی گرفت کرنا جن کے تعاون سے انہوں نے ظلم کیا۔
علی عبداللہ ندامت اور افسوس سے بوجھل ہوتا
جا رہا تھاکہ فرشتے کی آوا ز کانوں سے ٹکراتی ہے۔
فرشتہ :اے علی عبداللہ تو نے دیکھ لیا اپنے
خرچ کیے مال کے نتائج کو۔
تمہیں قرآن کا یہ پیغام کیوں نہ نظر آیا کہ قتال تو
صرف فتنہ ختم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ فتنہ مزید بڑھانے کے لئے ۔ کیا ا ن لوگوں
کے اس عمل نے بہت سارے فتنوں کو جنم نہیں دیا۔ کیا نبیﷺ، جن کے تم امتی ہو ، نے نظام قائم کیے بغیر قتال کیاتھا؟ کیا تجھے
دین کی تعلیم نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ قتال صرف اور صرف عادلانہ نظام کی اجازت
سے ہوتا ہےجو صرف اور صرف ظلم ختم کرنے کے
لیے ہے ۔ مظلوم لوگوں کی دادر سی کے لیے ہے ۔تمہارے مال سے تو مظلوموں پر ظلم کے
پہاڑ توڑے گئے ۔ اگر عادلانہ نظام قائم نہیں تھا تو تمہیں تو حکم تھا کہ پہلے اس نظام
کوقائم کرنے کی جدوجہد کرو۔ جس کے لیے عدم
تشدد پر کاربند رہنے کا حکم تھا۔
دوسرے ملکوں میں جہاد کے نام پر، ذاتی مفادات کے
لئے خانہ جنگی کروانے والوں کو ا پنےملک اور معاشرے کی فرسودگی کیوں نظر نہ آئی ۔
اے علی عبداللہ بظاہرتو نے مذہب کے نام لیواؤں پر خرچ کیا۔ کیا
ان مفاد پرست مذہبی جتھوں نے فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکا کر ان گنت انسانی جانوں کا
قتل عام نہیں کروایا ؟کیا تم نے پڑھا نہیں
تھا کہ مذہب تودراصل اولاد آدم کو جوڑنے کے لئے آتا ہے؟جبکہ ان لوگوں نے مذہب کے نام پہ لوگوں کو فرقہ د
رفرقہ تقسیم کیا۔ کیا تیری دیکھنے والی
آنکھوں نے دیکھا نہیں کہ یہ لوگ اصلاح کرنے والےتھے یا فساد فی الارض میں پیش پیش
تھے۔ تعلیم کا فروغ کرنے والے تھے یا تعلیم کے نام پرجہالت کا؟یاانسانیت کے نام پر
درندوں کی فصل کاشت کرنےوالے تھے؟
اے علی عبداللہ کیا تجھے پروردگار نے سوچنے
والا دماغ نہ دیا تھا؟ کاش تو شعوری جذبہ سے مال خرچ کرتا تو آج جہنم کا ایندھن نہ
بنتا۔ کاش تو نے دنیا میں عادل بادشاہ کے نظام عدل و رحمت کو قائم کرنے والے سچے
لوگوں کا ساتھ دیا ہوتا تو آج تو بھی ان کا جنت میں ساتھی ہوتا۔
اتنے میں پھر وہی جلال والی آواز آئی
" اے میرے بندے بتاؤ، تجھ سے کوئی ناانصافی تو نہیں ہوئی ؟"
علی عبداللہ روتے ہوئے پکارتا ہے " اے
عادل بادشاہ بےشک تو نے عدل کیا۔ بے شک میں نے د نیامیں خود ہی اپنی جان پر ظلم
کیا، تیرا دیا ہوا مال جھوٹے اور بھٹکے ہوئے لوگوں پہ خرچ کیا۔ اے ر حمن بادشاہ،
تیرابندہ تیرے حضور معافی کا طلبگار ہے۔ ایک بار اپنے بندے کو دنیا میں واپس بھیج
دے۔ تیر ابندہ پھر کبھی بھی جھوٹے لوگوں کا ساتھ نہ دے گا۔ اپنا مال، اپنا علم،
اپنی صلاحیت، اپنا وقت صرف اور صرف تیرے دین کو غالب کرنے والوں سچےلوگوں پہ خرچ
کرے گا"
اسی اثنا میں علی عبداللہ کی آ نکھ کھل
جاتی ہے۔ ا سکا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا، آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
چند لمحوں بعد اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تو یہ سب خواب میں دیکھ رہا تھا۔ وہ نیند
کے بعدزندہ اٹھنے پراللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہےاور اپنے آپ سے یہ عہد کرتا ہے کہ
وہ اب اس دنیا میں ہمیشہ سچے لوگوں کا ساتھ دے گا اور مال بھی سوچ سمجھ کر دین کے
غلبے کی حقیقی جدوجہد کرنے والوں پہ خرچ کرےگاتا کہ روز قیامت اللہ کے حضور سرخرو ٹھہرے۔
اپنا اپنا محاسبہ کریں ! کہیں ہم بھی غلط لوگوں کی صف میں اور غلط نظام کے حق میں تو نہیں
کھڑے؟؟شعور کی آنکھ کھولیں۔ حق اور باطل میں امتیاز کرنا سیکھیں۔