کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ اور مسلمانوں کا حال** - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ اور مسلمانوں کا حال**

    دور حاضر میں ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ قوم کا شعور طبقہ فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر دین کو غالب کرے

    By حبیب الرحمان Published on Apr 21, 2020 Views 1546
    *کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ  اور مسلمانوں کا حال* 

     حبیب الرحمان 
     اکوڑہ خٹک نوشہرہ

    ہرزمانہ اللہ تعالیٰ  کی تجلی کا نیا رنگ ہے۔اللہ تعالی نےہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے انبیا ء علیھم السلام  کا سلسلہ جاری رکھا اور جب سے نبوت کا دروازہ بند ہوا  تو اللہ تعالیٰ نے مجددین کے ذریعے سے فیض نبوت کا سلسلہ جاری رکھا۔
     انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر اعلیٰ خصوصيا ت سے نوازا ۔ان خصوصيا ت میں ایک خصوصیت ایجاد وتقلید کی ہے ۔ ہر دور میں ایسے علماء ربانی، حکماء،فلاسفہ  ،اطباء اور سائنسدان پیدا فرمائےجنھوں نے ایجا دو تقلید کی وصف کی بنیاد پر جمود کے سارے پردے چاک کر کے کل انسانیت کو ترقی سے ہمکنار کیا۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ جن اقوام نے بدلتے ہوئے حالات کا فہم وشعور کے ساتھ صحیح ادراک حاصل نہیں کیا وہ اقوام عالم کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگہ نہ بنا سکے۔یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ سائنسی علوم اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر ترقی ممکن نہیں لیکن کیا ان استعمالات کا کوئی دائرہ کارنہیں ہے؟
    کیاکسی طاقتور قوم کو یہ اختیار ہے کہ وہ کمزور اقوام کےوسائل لوٹے؟
    غریب ممالک پر کیمیائی اور حیاتیاتی جنگ مسلط کرے؟
    اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب سے دنیا میں دین اسلام کا غلبہ نہیں رہا اور مسلمان مجموعی طور پر زوال یافتہ ہو چکے ہیں اس دور سے طاغوتی اور سامراجی قوتوں نےاپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے انسانیت کو بد ترین قسم  کی جنگوں میں دھکیل دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرکے کروڑوں انسانوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا۔ تاریخ کے اوراق پلٹیے تو جنگ عظيم دوم  کی ہولناکی دیکھ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے جب امریکہ اور ان کےسرمایہ دار اتحادیوں نے جاپان کے شہر  ہیرو شیما پر 6 اگست 1945 کو لٹل بوائے نامی ایٹم بم گرا کر اور ٹھیک 3 دن بعد ناگاساکی پر فیٹ بوائے ایٹم بم گرا کر کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا اور لاکھوں انسانوں کو معذور اور اپاہج کیا۔یہ ظلم یہاں نہیں رکتا بلکہ مہلک ہتیار کا بے تحاشہ استعمال اور تجربات کیے جن میں (کیوبا،پانامہ،ویتنام ،
    جزائر بہامہ وغیرہ) شامل ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں ایکڑ زمین پر
     کھڑی فصلوں پر کیمیائی تجربات کرکے ان کو تباہ برباد کردیا۔
    جنگ عظيم دوم کے بعد گویا حیاتیاتی جنگ (Biological war)کی دوڑ شروع ہوئی، جس میں امریکی حکومت سب سے آگے تھی۔
    امریکہ بالخصوص دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلسل کئی دہائیوں سے لاکھوں انسانوں پر خواہ وہ عام شہری ہوں یا فوجی، تجربات کر رہا ہے جن کا مقصد یہ پرکھنا ہے کہ ان تجربات سے ان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
    الف ) کیمیائی حیاتیاتی مواد بشمول اعصابی گیسیں کس حد تک متأثر کرتی ہیں۔
    ب) ایٹمی تابکاری خصوصاپلو ٹونیم کے استعمال سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
    ج) دماغی قوتوں کوقابو کرنے والی دوائیں ۔
    انسانوں پر تجربےکرنے کے لیے حکومتی ایجنسیاں ایسے لوگوں کا انتخاب کرتی ہیں ،جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہ ہو جیسے ملازمت پیشہ مرد اور عورتيں ، کم عقل اور بے شعور لوگ،قیدی،سیاہ فام، مفلس ،بوڑھے ،نوجوان ،
    ذہنی مریض وغیرہ ۔
    نوٹ: اگر امریکہ فلم انڈسٹری کے فلموں کا جائزہ لیا جائے تو متعدد ایسی فلمیں دیکهنے کو ملتی ہیں جو امریکہ خفیہ ایجنسی سی آئ اے کے ساتھ مل کے بنائی گئیں  ہیں ،جس میں انسانوں اور جانوروں پر مختلف قسم کے تجربات  کرتےہوئے دکھایا گیاہے۔
    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ 1979میں یہ بات منظر عام پر آئی کہ امریکی فوج نےجنگ کی تیاریوں کے سلسلے میں مختلف پرندوں کے ذریعےبعض تجربات کیے اس سے بھی پہلے دسمبر 1951 میں امریکی سیکرٹری دفا ع نے حکم جاری کیا کہ حیاتیاتی ہتھیاروں سے حملے کی تیاری جتنی جلدی ممکن ہو سکے عمل میں لایا جائے۔
    یہ حقیقت اپنی جگہ قابل توجہ ہے کہ
    کیمیکل کنونشن کے ابتدائی سالوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کنونشن کے احکامات کی تعمیل کے حوالے سے امریکہ کا ریکارڈ بالکل تاریک ہے جو کہ دنیا کی دیگر اقوام کے لیے نہایت افسوسناک مثال ہے۔
    دور حاضر میں ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجوں کی نوعیت کثیر الجہات ہے ۔خاص کر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پسماندگی ہمارا  ایک ایسا روگ ہے جس نے ہمیں بار بار ہزیمتوں اور رسوا کن شکستوں سے دوچار کیا ہے۔پھر سرمایہ دار اور دیگر ظالم  قوتوں کی سازشیں اور جارحیتیں ہیں جن کا مقصد مادی وسائل پر تسلط ، اور تیسری دنیا کے ممالک کو معاشی اعتبار سےغلام بنانااور اس کے ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کاتمدن اورتاریخ سےکاٹ کراپنی سرمایہ پرستی کی ثقافت سے جوڑناہے لیکن سب سے زیادہ شرمناک مظہر" تقسیم کرو اور لڑاؤ "کی پالیسی کے تحت مسلمانوں کو آپس میں مذہبی، لسانی، علاقائی بنیادوں پر  لڑا کراپنے گروہی مقاصد کا حصول ہے۔
    اور اس قسم کے اعمال کواللہ تعالیٰ نے عذاب الٰہی کے طورپربیان کیاہے، قرآن حکیم نے  سورہ انعام کی آیت نمبر 65میں ذکرکیا ہے۔ ترجمہ:" یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک دوسرے سے لڑا کر آپس کی لڑائی کا مزہ چکھا دے"۔
    خلاصہ کلام دہائیاں  
    گزرنے کے بعد سرمایہ دار قوتیں اُسی زور وشور سے انسانیت کی تباہی کا سامان پیدا کر رہی ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امام شاہ ولی اللہ اور ان کی جماعت،بالخصوص امام انقلاب مولاناعبیداللہ سندھیؒ کے نظریے کے مطابق  سامراجی نظاموں سےآزادی حاصل کرکےاپنی آزاد حیثت قائم رکھتے ہوئےجدید ٹیکنالوجی  سے مسلح ہوں ، خذماصفا پرعمل کرتے ہوئے دنیاکی ترقی یافتہ اقوام سےجدید ٹیکنالوجی کا حصول نا گزیر ھے تا کہ مسلمان دور کے تقاضوں کے مطابق ترقی کا حصول ممکن بنا سکے اور دشمن کے ہر وار کا مقابلہ بھی کرسکےاور یہ قرآن حکیم کا حکم بھی ہے "اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمھیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو  کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن ہیں"

    (سورة الانفال آیت نمبر 60)
    اور یہ تبھی ممکن ہے کہ قوم کا با شعور طبقہ فرقہ واریت اور جذباتیت سے بالا تر ہو کر عدم تشدد کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کر دین اسلام کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر غالب کرکے اور سرمایہ داری نظام کو شکست دے کر انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔
    Share via Whatsapp