سیٹھ جی اور عالمی استحصالی نظام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سیٹھ جی اور عالمی استحصالی نظام

    خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ اس تحریر کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح ایک فرد یا ادارے، افراد یا قوموں کو پستی کی طرف دھکیلتے ہیں اور پھر ان کو

    By حافظ عبدالستار Published on Apr 28, 2020 Views 1987
    سیٹھ جی اور عالمی استحصالی نظام
    حافظ عبدالستار،لاہور
     دنیا کی بالعموم اور پاکستان کی بالخصوص ،موجودہ صورتحال کے تجزیہ کے لیےگردو  پیش میں موجود ایک کردار کو بطور مثال سامنے رکھیں تواس عالمی بحران کے اصل ذمہ دار کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ معاشرتی زندگی میں مختلف طبقات کا باہم تعلق اور لین دین فطری بات ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کوئی بہت امیر ہے تو کوئی بہت غریب ۔ اس طبقاتی فرق میں استحصال کمزور طبقے کا ہی ہو تا ہے۔  استحصال کی جو بھی شکلیں معاشرے میں موجود ہیں ان میں سے کچھ تو قابل بیان بھی نہیں ۔ 
     یہ واقعہ ایک لاچار اور مجبور باپ کا ہے جس کا بیٹا بہت سخت بیمار ہے۔ گھر میں  کھانے کو کچھ ہے  نہ دوائی کے  پیسے ۔ تنخواہ خرچ کر چکا ہے، محلے میں موجود دکانوں سے ادھار کی حد بھی ختم ہےاور  قرض کی امید بھی۔ مایوسی کے اس عالم میں اپنی فیکٹری کے منشی کے پاس گیا کہ چند روپے ادھار لے سکے۔ پہلے تو اس منشی نے اس کا سر تا پا بغور جائزہ لیا پرانا کھاتا دیکھا اور کہا تم سیٹھ جی سے  بات کر لو میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ سیٹھ جی  نے اس شخص کے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا، بات سنی اور بعد میں آنے کا کہا۔
    سرمایہ داری کے اس دور میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مجبور لوگوں کو اس حد تک گھسیٹتے ہیں کہ مدد مانگنے والا "امداد" کو کسی بھی شرط پر لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس "امداد "کی آڑ میں انتہائی سخت اور ذلت آمیز شرائط پر قرض دینا، گھناؤنی سوچ کے حامل افراد کے لیے کوئی نئی بات نہیں ۔ قرض لینے والے کے موجود اثاثہ جات اوروسائل کا مالک بننے کی غرض سے  فرد  کی مالی مجبوری سے فائدہ اٹھانا یہاں تک کہ اپنے مالی فائدہ کے لیے کسی کی جان بھی لے لینا ۔ پھر وہ جان کسی ایک فرد کی ہو یا کئی سینکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں کی، مفادات کی سنگینی کے پیشِ نظر فیصلہ کرتے وقت ان افراد کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ کسی مجبور انسان کی عزت کی پامالی ہو ، شہروں کے شہر ، ملکوں کے ملک یہاں تک کہ پوری دنیا کی اقوم ، بلا تفریق رنگ نسل مذہب اس مالی مفاد کی بھٹی میں جھونک دیے جاتے ہیں۔اپنی اس نہ مٹنے والی ہوس زر کی تکمیل کے دوران اگر کوئی ملک اجڑ جائے ، قوم برباد ہو جائے تو اس کو خانہ جنگی یا گروہی  شرارت کہہ کر کیس بند  کر دیا جاتا ہے۔حقائق کو یکسر بدل دیا جاتا ہے اور مارنے والا ہی مسیحا بن کر کھڑا ہو تا ہے۔
     قصہ کی طرف لوٹتے ہیں، سارا دن گزر گیا بیماری میں شدت آگئی بچے کی جان لبوں پر آگئی، باپ تڑپ اٹھا ،سیٹھ جی کی طرف بھاگا ، سیٹھ اس صورتحال کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا ۔ باپ نے مدد مانگی تو سیٹھ جی نے اپنی شرائط بتائیں ۔ شرائط میں لکھا گیا  کہ اتنی رقم ،اتنے عرصے کے لیے اس قدر سود پر دی جاتی ہے مقررہ وقت پر ادا نہ کرنے کی صورت میں اس مزدور کا آبائی مکان (جو اچھے وقتوں میں اس کے دادا نے بنایا تھا اور موقعہ کی جگہ تھی )سیٹھ کو بازار سے کم قیمت پر فروخت کر دےگا ۔ مرتا کیا نہ کرتاایک طرف بھوک اوربیماری سے مرتا ہوا جگر کا ٹکڑا اور دوسری طرف سیٹھ کی کمینگی ، مکان سے متعلق شرائط مان کر قرض اٹھا لیا ۔ باپ کی طاقت اس درندہ صفت ذہنیت کا مقابلہ نہ کر سکی۔سیٹھ تو مکار تھا وہ سود پر کڑی شرائط پہ قرض دے کر اس کی نسلوں کی مفادات کا سودا کر رہا تھا جو کہ سیٹھ کا پرانا حربہ تھا ۔وہ ہر بار نئے طریقے سے پرانے حربے نئے شکار پہ خوب داؤ پیچ کے ساتھ آزماتا تھا اور کامیاب ہوتا آ رہا تھا۔ اس کے سامنے مجبور شخص چند ٹکوں کے عوض اپنے اور آئندہ نسلوں کے مفاد کو گروی رکھوا دیتا۔
    اب ذرا نظر اٹھائیے اپنے ارد گرد دیکھیے اور اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کیجیے ۔ سیٹھ کی یہ سوچ صرف ایک فرد تک محدود نہیں بلکہ فرد ہو یا ملک ، قرض دینے والوں کی شرائط  آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔آپ سوچیں کہ اگر اس سیٹھ کو اپنے پاس کام کرنے والے مجبور اور بے بس باپ پر اس مشکل وقت میں رحم نہیں آیا اور اس نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسے حالات پیدا کیے کہ اس مجبور باپ کے پاس سیٹھ کی کڑی شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے۔ تو  یہ کیسے مان لیا جائےکہ  علاقائی یا عالمی مالیاتی ادارے ملکوں اور قوموں کو ایسے حالات سے دوچار کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہوں گے ، ایسے حالات پیدا نہ کرتے ہوں گے کہ مقروض ممالک  مجبور ہو کر ان کی تمام شرائط مان لیں ۔ غریب اور کمزور ممالک کو "امداد" اور قرض کی آڑ میں سیاست، معیشت اور دیگر اہم شعبوں میں اپنی  قومی خود مختاری پر سمجھوتا، اپنےاثاثوں کو گروی رکھنا ، اور قرض دینے والے ملکوں اور ان کے کنسورشیا کےمن چاہے سیاسی اور معاشی فیصلے تسلیم کرنا، حتیٰ کہ ان ملکوں اور قوموں کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنا معمول کی بات ہے۔
     بد قسمتی سے ایسی پست سوچ کے حامل افراد، گروہوں اور اداروں نے بہت طاقت حاصل کر لی ہے۔ ان کی نئی شرارت یہ ہے کہ اس بار اپنے سیاسی اور مالی اہداف کے حصول کےلیے پوری دنیا کو ایک نہ نظر آنے والی بیماری کی آڑ میں اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔اسی آڑ میں تمام انسانیت کو اجتماعیت گریز رویوں کی راہ پہ ڈال رہےہیں۔انفرادیت پسندی کو فروغ دیاجارہاہے۔
     افسوس کی بات  ہےکہ مظلوم انسانیت اس قاتلانہ حملے کے پس پردہ سرگرمیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اب انسانیت اس ان دیکھی بیماری کے خوف سے مر ےگی یا نہیں البتہ بھوک سے مرنا خارج از امکان نہیں ۔ اور پھر اس مجبور اور لاچار انسانیت کو سیٹھ کی گندی استحصالی ذہنیت کے حامل دنیا کے چند امیر ترین خاندان اور ان کی آلہ کار حکومتیں اور ادارے من چاہی شرائط پر جب بھی اور جیسے بھی  قوموں کو رضامند کر لیں  کہ ان کو مجبوراً سر جھکانا پڑے گا۔
     اس باپ کی طرح قوموں کے پاس اب دو راستے ہیں ، یا تو سیٹھ کی بات مان کر اپنے مستقبل کو گروی رکھ کر ساری زندگی ذلت و رسوائی میں گزارے یا اپنی آزادی پر دل و جان سے بھروسہ کر کے عزت و وقار کو برقرار رکھےاور مطلوبہ وسائل کے حصول کے لیے متبادل راستہ اختیار کریں۔ تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے مشکلات کے باوجود محنت اور عظمت والا راستہ اختیار کیا ترقی و کامرانی انہیں کا مقدر بنی ۔ اس کے لیے مقتدر حلقوں(منشیوں) سے کوئی امید نہیں  انہوں نے تو عالمی سیٹھوں کی  طرف متوجہ کرنا ہے۔امید کی کرن نوجوا ن ہے۔ درحقیقت  کسی گھر، خاندان ، قوم یا ملک کی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہذا سماج دشمن مفاد پرست گروہوں کا اصل ہدف بھی یہی نوجوان طبقہ ہوتا ہے جس پر یہ طاقتیں قبضہ کرنا چاہتی ہیں ۔اب طریقہ واردات کوئی بھی ہو مقصدمعاشی استحصال ہے۔ جب تک ملک کا  نوجوان اپنی اہمیت کو نہیں سمجھے گا، اپنے شعور کو بلند نہیں کرے گا ، اپنے آپ کو کسی باشعور اجتماعیت کا حصہ نہیں بنائے گااور آگے بڑھ کر سوسائٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے  لیےاپنے آپ کو تیار نہیں کرے گا، تب تک بحیثیت قوم ایسی گھناؤنی سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔سب کو مل بیٹھ کراس بارے میں سوچنا ہے اور گرد وپیش میں موجود ایسی نیچ سوچ کی نشاندہی کرنی ہے اور اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ ہم یہ شعور پیدا کرلیں کہ کون سا سیٹھ ، مالیاتی ادارہ یا عالمی طاقتیں اپنے گھناؤنے عزائم کے لیےاقوام کو استعمال کررہی ہیں۔
    Share via Whatsapp