جسمانی و روحانی تقاضوں میں اعتدال پسندی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جسمانی و روحانی تقاضوں میں اعتدال پسندی

    ‎لیکن انسان کو جسم اور روح کے تقاضوں میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینے  کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کیونکہ دین اسلام میں  محض رہبانیت سے منع کیا گیا ہے۔

    By محمد جنید Published on May 21, 2025 Views 149

    جسمانی و روحانی تقاضوں میں اعتدال پسندی

    تحریر: محمد جنید۔ چشتیاں 


    ‎انسان جسم و روح کے ملاپ سے مرکب ہے، جیسے پانی ہائڈروجن اور آکسیجن کا مرکب (Combination )ہے۔ اسی لیے انسان کو جسمانی و روحانی تقاضوں میں اعتدال پسندی سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے جو انسان ان دونوں تقاضوں میں میانہ روی سے کام لیتے ہیں، وہ کامیابی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں۔ آیئے اَب ان دونوں کی الگ الگ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان میں اعتدال کا راستہ کیسے اپنایا جا سکتا ہے، اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔

    ‎جسم جو کہ جسد خاکی ہے، اس کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، سردی و گرمی کی شدت سے بچاؤ، وغیرہ وغیرہ، شامل ہیں۔ اَب اگر انسان صرف جسم کے تقاضوں کو پورا کرنے کی جانب راغب رہے اور روح کے تقاضے بھول جائے تو نارمل نہیں رہتا، بلکہ روحانی طور پربیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    روحانی تقاضوں میں نماز، روزہ، زکوۃ، ذکر و اذکار، وغیرہ شامل ہیں،جس طرح جسم کے تقاضوں کا خیال رکھا جاتا ہے، ویسے ہی روحانی تقاضوں کو بھی پورا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انسان، جب نماز و ذکر میں مشغول ہوتا ہے تو اس سے روح خوش ہوتی ہے اور انسان روحانی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اصل ترقی و کامیابی روحانی ترقی ہی ہے،‎لیکن اس کے باوجود انسان کو جسم اور روح کے تقاضوں میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کیوں کہ دین اسلام میں رہبانیت سے منع کیاگیاہے۔

    اَب اگر محض نفسانی خواہشات میں مبتلا رہا جائے، جسے بہیمیت کا نام دیا جاتا ہے تو انسان روحانی طور پر بہت کمزور، بلکہ بیمار ہوجاتا ہے۔ جس سے بہت سے اجتماعی واِنفرادی مسائل جنم لیتے ہیں،جس کا نتیجہ بداخلاق (جیسے کہ شراب خوری، زنا کاری، دوسروں کی حق تلفی، وغیرہ وغیرہ) امراض کاپیدا ہونا ہے۔ یہ انتہاپسندی سوسائٹی میں گراوٹ کا ذریعہ بنتی ہے اور معاشرے کو اجتماعی زوال کی طرف لے کر جاتی ہے،جس کا نتیجہ مفادات کی جنگ میں مبتلا ہو کر، اخلاقی گراوٹ کا شکار زدہ معاشرہ جنم لیتا ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتاہے۔ 

    ‎کیپٹل اِزم، (سرمایہ دارانہ نظام )کی وَجہ سے عدمِ توازن پیدا ہوچکا ہے،جس کی وَجہ سے ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے، جب کہ زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پے مجبور ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے موجود ہونے کی وَجہ سے جو عدمِ توازن ہے، اس سے طبقاتی نظام، طبقاتی معاشرہ وجود میں آگیا ہے،جس سے ایک طرف امیرترین طبقہ جوکہ وسائل پر قابض ہے، اپنی عیش و عشرت اور آرام و سکون کو ترجیح دیتے ہوئے عوام پر بےجا ٹیکس لگا کر انھیں نڈھال کر رہا ہے۔ جس کی وَجہ سے اخلاقی طور پر زوال زدہ معاشرہ وجود میں آچکا ہے۔ 

    ‎وسائل پر قابض لوگ عیش و عشرت، شراب خوری، زنا کاری، بدکاری، حق تلفی، جیسی بیماریوں میں ملوث ہیں۔ تو دوسری طرف کا طبقہ مایوسی، خودکشی، لوٹ مار، ڈاکا زنی، چوری چکاری، جیسے جرائم میں ملوث دِکھائی دیتا ہے۔

    ‎ایسی صورتِ حال میں، اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہمہ گیر سماجی تبدیلی کی ہے اور با شعور نوجوانوں کو تعلیم و تربیت دے کر متبادل قیادت اور لیڈرشپ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اس ظلم و درندگی کے نظام کو بدلا جاسکے اور مظلوم انسانیت کو ان کی محنت کا صحیح اور معقول معاوضہ دے کر ان میں خود داری پیدا کی جا سکے۔

    آج ملک پاکستان میں رجسٹرڈNGO’sکا ایک پورا نیٹ ورک موجود ہونے کے باوجود غربت بڑ ھتی جا رہی ہے۔ ملکی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیرلیتے ہیں جو کہ ان اداروں کی ناکامی اور ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    ‎آج دین اسلام کی سچی تعلیمات کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق، سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے،تاکہ انسان جو کہ جسم و روح کا مرکب ہے، وہ اپنے فطری طریقوں سے حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ اور یہ مقصد موجودہ سرمایہ پرستانہ نظام سے گلو خلاصی کے بعد  ہی ممکن دِکھائی دیتا ہے۔

    Share via Whatsapp