نماز اور نماز کا معاشرہ
نماز کی ادائیگی کے مقاصد میں شامل ہے کہ نماز کا معاشرہ قائم کیا جائے۔
نماز اور نماز کا معاشرہ
تحریر: عبدالستارخان مہمند
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا نماز دین کا ستون ہے۔جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا ،جس نے نماز کو گرا دیا اس نے دین کو گرا دیا''
حدیث مبارکہ میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ اس کا قیام اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی نماز پڑھنے کے ساتھ اس کا نظام معاشرے میں قائم کرنا بھی نماز کی ادائیگی کے مقاصد میں شامل ہے۔نماز ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سب سے پہلے اپنے ظاہر کو پاک صاف کر و پھر نماز شروع کرو۔ پھر داخلی چیزوں یعنی نیت، اخلاق ، سوچ،عمل کو بھی پاکیزہ رکھو۔ فرض نماز اجتماعی عمل ہے جس کے لیے امام کی ضرورت ہوتی ہے۔نمازکی امامت کے لیےوہ فرد چنا جائے جس پر تمام مقتدیوں کا اعتماد ہو کہ یہ فرد ہماری نماز ضائع نہیں ہونے دےگا اور ہم اسکی اقتدا ءمیں روحانی ترقی کریں گے۔ اب اسکی چھان بین ہوگی کہ امام معاشرے میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ وہ قرآن کوکتنا سمجھتا ہے ؟ قرآنی احکامات کا لحاظ رکھتا ہے؟ سنت کی پیروی کرتا ہے؟ اگر محلے کی سطح پر ایسی اجتماعیت کے لیے ظاہری و داخلی پاکی اور پھر ایک صالح امام کی ضرورت ہے تو کیا ایک بڑی اجتماعیت کے لیے اس کا اہتمام کرنا ضروری نہ ہوگا؟
چنانچہ امامت کبریٰ (حکومت و خلافت ) کیلئے وہ فرد منتخب کیا جائے جس پہ پوری قوم کو اعتماد ہو اور قوم یہ کہےکہ یہ فرد اس قابل ہے کہ یہ ہماری زندگی اور وسائل کو ضائع نہیں کرےگا۔ہم اس کی سیاسی اقتداءمیں ترقی کریں گے۔اب اس کے انتخاب کا طریقہ کار بھی وہی نماز کے امام جیساہوگا کہ معاشرہ میں اس کے کردار کو دیکھا جائےگا کہ اب تک کی زندگی میں کیسے فیصلے کئے ۔لوگوں کے لیے کتنا سو دمند ہے۔ جیسا کہ حضور اکر م ﷺ نے فرمایا کہ "لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے سب سے بہتر ہے"۔
پھر نماز کی امامت میں جب امام غلطی کرے تو پوری جماعت امام کی غلطی پر اس کے ساتھ سجدہ سہو کرتی ہے۔ اگر دوران جماعت کوئی مقتدی غلطی کرے اور امام درست ہو تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ پھر اسکی غلطی پہ فقط مقتدی کو زبانی کلامی طور پہ استغفار کرنے کی تلقین کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح حکومتی لیڈر اپنے فیصلوں میں غلطی کرتا ہے تو پوری قوم کو اس غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے مشقت اٹھاناپڑتی ہے۔اگر امام سیاست میں درست فیصلے کر رہا ہو اور کوئی انفرادی طور پہ غلطی کرے تو امام اس غلطی کی سزا فقط اس فرد کو دےگا خواہ وہ کیسی ہی سنگین غلطی کیوں نہ ہو اس کا نقصان پوری قوم نہیں اٹھاتی اور اس فرد کواستغفار کرنے کا کہا جائےگا ۔اگر غلطی حقوق العباد میں ہوئی ہے تو مظلوم کو حق دلوا یا جائے گا۔
نماز منظم عمل سکھاتی ہے جس کی خلاف ورزی ممکن نہیں ۔ امام کے سجدے سے پہلے سجدہ کر لیا تو جماعت سے نکل گیا۔ اسی طرح جو اجتماعی عمل سے الگ ہو جائے تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ ایسے فرد پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے۔ اور جس پر شیطان مسلط ہوجائے وہ جہنم کا ایندھن بنتا ہے۔اب معاشرے میں امام کے فیصلے سے ہٹ کر کوئی اقدام کیا تو یہ قوم سے الگ ہوجائےگا اب وقت کا امام اس کیلئے فیصلہ کرےگا کہ امیر وقت کی اطاعت کرو ورنہ قید کر دیئے جاؤگے یا بغاوت کی سزاپاؤگے۔اس طرح یہ زندگی جہنم بن جائےگی۔ اگر بات مان لے اورواپس ٓاجائے تویہ دنیا بھی جنت بنا دی جائےگی اورآخرت میں بھی جنت ملےگی جو کہ دنیا و آخرت کی حسنہ کا مصداق ہوگا۔
نماز یہ سکھاتی ہے کہ جو محنت کر کے جماعت میں پہلے شامل ہو جائے اسے اس کا مقام ملے اور دیر سے آنے والا اس فرد کو اس مقام سے نہیں اٹھا سکتا کہ میں بیٹھوں گا۔اسی طرح معاشرے میں جو محنت کر رہا ہے اسے اسکی محنت کامکمل معاوضہ ملنا چاہئے اگر بعدمیں کوئی تھوڑی سی محنت کر کے اسی کام کے برابر کا مکمل معاوضہ مانگے تو یہ اسے نہیں ملنا چاہئے ۔اسی طرح نماز میں سب شاہ و گدا برابر ہیں ،کسی رنگ،ذات پات، مسلک کا فرق روا نہیں رکھا گیا۔تو معاشرے میں بھی اس کا اثر یہ ہوگا کہ بنا رنگ،نسل،ذات پات،مسلکی فرق کے تمام انسانوں کو برابر سمجھ کر انکو سہولیات مہیا کرنا، امن وسلامتی کا نظام دینا، معاشی خوشحالی دینا معاشرے میں قائم نظام کی ذمہ داری ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نماز معاشرے کی بکھری ہوئی قوتوں کو ایک صف اور جماعت کی شکل میں ڈھالتی ہے۔ چنانچہ سابقہ الہامی کتب میں امت محمدیہ کا تعارف ہے جس کا مفہوم یوں ہے کہ " اس امت کا قتال (اجتماعی امور ) کے لیے صف بندی کرنا اور نماز (عبادت )کے لیے صف بندی کرنے کاعمل ایک برابر ہے" ۔