خطبات ملتان۔ازمفتی عبد الخالق آ زاد رائے پوری
دین اسلام کے معاشی اور سیاسی نظام پر مبنی ایک جامع کتاب خطبات ملتان۔ازمفتی عبد الخالق آ زاد رائے پوری
خطبات ملتان ؛ از مفتی عبد الخالق آ زاد رائے پوری
تبصرہ ؛ سعد خان ، مری بلوچ
کتاب کی اہمیت
زمانہ قدیم سے کتابوں کے ساتھ وابستگی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق کتاب سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ لوگ کتاب لکھتے ہیں اور کچھ پڑھتے ہیں۔ کتاب لکھنے اور پڑھنے والوں کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، لیکن فائدہ تب ہوتا ہے، جب اصل حقائق سامنے ہوں۔ ورنہ اختتام پر شاگرد کو پوچھنا پڑتا ہے کہ زلیخا مرد ہے کہ عورت؟
بہرحال اگر یہ کہا جائے کہ کتاب ہی کے ذریعے دنیا کی تمام اقوام نے زوال سے عروج حاصل کیا تو بے جا نہ ہوگا۔
میری زندگی کا آٹھ، نو سال کا عرصہ زیادہ تر کتاب کے ساتھ رہا۔ وہ اس طرح کہ میں نےآ ٹھ سالہ درس نظامی کا نصاب، مدارس میں کتابوں کے ذریعے ریگولر پڑھا، خوب مطالعہ کر کے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ خوب پیا، مگر پیاس نہیں بجھی۔ موقوف علیہ (آخری تعلیمی سال سے، پہلا سال) تک تو میں نے اپنے دوستوں کو بھی تشنہ پایا، کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید مزید علم سے پیٹ تو بھر جائے، مگر پیاس نہ بجھے۔ لیکن الحمدللہ دورہ حدیث شریف پڑھنا جس ادارے میں نصیب ہوا، اور جن بزرگوں کی صحبت ملی تو حقیقی آگہی کی قدر آئی ۔
مدارس کے تعلیمی نظام اور ماحول پر نقد
ضرب یضرب (درس نظامی میں گرائمر کی ابتدائی تعلیم) کی جس گاڑی پر ہم سوار تھے، اس کے آغاز و انتہا اور انجام کا شاید کسی کو بھی علم نہیں تھا، بلکہ معذرت کے ساتھ آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ اس میں سوار لوگ کبھی تو کراچی کو گلگت اور کبھی خوش فہمی میں گلگت کو کراچی کہتے ہیں۔ ہمیں کہا گیا کہ سود کی ایک پائی بھی حرام ہے، جب کہ خود حیلہ کرکے، سود کے بینک کھولنے والوں کے ملازم بن بیٹھے۔پھر اس کے جواز میں کتابوں کے ڈھیر لگا دیے اور دلائل بھی ایسے دیے کہ جیسے "اپنے لیے بیٹے پسند کریں اور اللہ کے لیے بیٹیاں"
اَب بند ہ آٹھ سالہ کورس کے بعد عالم تو بنا، مگر عملی زندگی اور عملی کام کرنے کے حوالے سے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔مثلاً کوئی شخص اس پہلو سے سوال کرے کہ اس دوران آپ نے جو پڑھا، کیا اس میں، میری بھوک و پیاس اور پریشانی کا بھی کوئی علاج ہے؟ جواب بڑا آسان ہے، جی آپ کے بارے میں تو نہیں سنا، مگر حضورﷺ نے بھوک کے وقت پیٹ پر پتھر باندھے تھے۔ اس پر کسی دیہاتی نے پوچھا کہ آج کل مولویوں کے پاس تو بڑا پیسہ ہے؟ خطیبِ منبر گویا ہوا کہ ہم نے بڑی محنت کی ہے، اس نے پھر پوچھا کہ نبی کریمﷺ نے؟ بس یہاں اسلام کا معاشی نظام اختتام کو پہنچا۔
میری تلاش حق
طویل عرصہ تک میں اس جستجو میں رہا کہ کوئی ایسی کتاب ملے، جس میں عام فہم انداز میں، آ ج کے دور کے مطابق، اسلام کے نظام سیاست و معیشت کو آسان اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ مگر میں آٹھ سالہ درس نظامی کورس میں اسے نہیں پاسکا۔ میرے خیال میں آیا کہ کسی دوست سے مشورہ کرلوں۔ اس پر خطبات ملتان کا نام سامنے آ یا جوکہ مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری کی تالیفات میں سے ہے، مگر یقین نہیں آتا تھا کہ کسی مذہبی شخص سے اس طرح کا کام ہو۔ کیوں کہ عام طور پر ماحول میں، مذہبی لوگوں سے اس طرح کی توقع کم ہو تی ہے۔ میں کئی دینی علما کے خطبات کا مطالعہ کرچکا تھا، سوائے اس کے کہ دس محرم الحرام کو یہ ہوا اور بارہ ربیع الاول کو یہ ہوا، کون وہابی ہے اور کون سنی۔
مصنف اور کتاب کے بعض ابواب کا تعارف
مولانا مفتی عبد الخالق آ زاد صاحب کے بارے میں، میں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار کا جو فہم آپ کو عطا کیا ہے وہ واقعی استفادہ کے قابل ہے۔ لہٰذا مذکورہ کتاب کھولتے ہی پہلی نظر جب فہرست ابواب اور ان کے مضامین پر پڑی تو
إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ کی طرح " گمشدہ متاع کے پکے نشانات ملنے لگے" یہ کتاب دراصل بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں مفتی صاحب کےدیےگئےخطبات پرمشتمل ہے-
1۔ اس کتاب کے پہلے باب میں، "اسلام کے نظامِ عدل وسیاست" کو جس طرح مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے، وہ یقیناً ہر نوجوان کے لیے قابل مطالعہ ہے۔
2۔اگلےباب میں اسلام کا نظام معیشت پڑھا تو دنگ رہ گیا۔
مفتی صاحب نے عالمی نظام ہائے معیشت کا، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار معیشت کے حوالے سے جو موازنہ پیش کیا ہے، اس سے ایڈم سمتھ اورکارل مارکس کے نظریات اور ان کا ضعف کھل کر سامنے آگیا اور اسلام کے بابرکت نظام معیشت کی حقانیت سامنے آگئی۔
3۔ مزید یہ کہ اسلام کے نظامِ معیشت کے اس وسیع علم کو جو میں اپنے طالب علمی کے آٹھ سالہ تعلیمی دورانیے میں، اپنی نادانی سے حاصل نہ کرسکا، اسے مختصر اور جامع انداز میں پیش کرنا عام سکالرز کے بس سے باہر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحب کے ہی حصے میں ودیعت کیا ہے۔
4۔ آخری باب میں مفتی صاحب نے آپ ﷺ کی زندگی کے اجتماعی پہلو کو، موتیوں کی لڑی میں جس طرح پرویا اور پھر اس کے بعد وطن عزیز کے استحکام کے حوالے سے لیکچر دیا وہ حقائق پر مبنی ہے۔
مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس قوم پہ غلامی کا سایہ جتنا طویل ہو، اسے اتنا ہی خوابِ غفلت مزہ دیتی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے محققین کو چھوڑ کر غیروں کے پیچھے چلنا پسند کرتی ہے۔
بنی اسرائیل کو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے چنگل سے نکالا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کے سامنے فرعون کو غرق کیا۔ پھر بھی انھوں نے دریا پار جا کر بچھڑے کو اپنا خدا بنالیا۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہ حیثیت قوم کے، ہمارے نوجوانوں کو مفتی صاحب کی تصنیفات وتالیفات سے متعارف و مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ، ان پر عمل کی بھی توفیق دے۔