شاک ڈاکٹرائن کیا ہے؟ (حصہ دوئم) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • شاک ڈاکٹرائن کیا ہے؟ (حصہ دوئم)

    عراق جنگ کے دوران ملک کی تعمیر نو کے نام پر بڑی کاروباری کمپنیوں نے لا محدود منافع اور فوائد حاصل کئے۔

    By سہیل مجاھد Published on Aug 17, 2020 Views 1572

    شاک ڈاکٹرائن کیا ہے؟ (حصہ دوم)

    سہیل مجاہد، محمد عثمان۔ فیصل آباد

    شاک ڈاکٹرائن  سے فائدہ اور نقصان اٹھانے والے طبقات:-

     معاشی اصلاحات کا یہ عمل انتہائی دولت مند افراد اور کثیر القومی(ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے لیے فائدہ مند اور بقیہ عوام کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ معاشی شاک تھیراپی کے ذریعے اشیائے ضرورت  کی قیمتوں پر حکومتی  کنٹرول ختم کرنا، قومی اداروں کی نجکاری اور غیرملکی کمپنیوں کے کاروبار کو غیرمشروط اجازت جیسے اِقدامات کا اثر براہ راست عام آدمی  پہ پڑتا ہے۔مثلاً چلی میں پنوشے کے دورِ حکومت میں کی  جانے والی معاشی اصلاحات کے پہلے مرحلے میں بےروزگاری کی شرح  20فی صد تک پہنچ گئی، جوچلی کی تاریخ کی بلندترین شرح تھی۔1982ءمیں معاشی اصلاحات  کے اگلے مرحلے کے نافذ ہونے کے بعد یہ شرح30 فی صد  تک پہنچ گئی جب کہ اسی دوران معیشت کا مجموعی حجم 15 فی صد تک کم ہوچکا تھا۔

    شکاگوسکول آف اکنامکس کی نگرانی میں نافذ کردہ ان بے رحم معاشی پالیسیوں کےدیرپااثرکو نظرانداز کرناآسان کا م نہیں، جن کے نتیجےمیں 2006ء میں چلی معاشی طور پر ناہموارترین معاشروں کی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر پہنچ گیا۔

    معاشی بحران کے دنوں  میں حکومتوں اورمقامی کمپنیوں کے لیے اپنی بقا کو قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔چونکہ معاشی بدحالی کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید ختم ہوچکی ہوتی ہے، اس لیے کمپنیوں کو اپنی اشیا بیچنے کے لیے خریدار تلاش کرنے پڑتے ہیں۔مثال کے طور پرعراق پر قبضے کے بعدامریکہ نےعراقیوں کواپنی تیل کی صنعت کی نجکاری کرنے پر بندوق کی نوک پر مجبور کیا۔اس کے بعد عراقیوں سے ایسی قانون سازی کروائی گئی جس کے تحت بیرونی کمپنیاں اپنا 100 فی صد منافع بیرون ملک لےکر جاسکتی تھیں اور ان پرحاصل کردہ منافع کی عراق میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔اِس کے علاوہ ان کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح بھی 45 فی صد سے کم کر کے محض 15 فی صد کردی گئی۔ان اقدامات سےعراقی معیشت کو کتنابڑا دھچکا لگا،  اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ عراقی حکومت کی آمدن کا 95 فی صد حصہ تیل کی پیداوار سے منسلک تھا، یعنی دوسرے لفظوں میں آپ نے عراقی حکومت اور عوام کو اپنی آمدنی کے 95 فی صد حصے سے محروم کردیا۔

    مالی امداد کے نام پر کھلی منڈی کی شرائط کا نفاذ:-

     1980ء کی دہائی میں مغربی سامراجی  اقوام نے یہ سبق سیکھا کہ ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد سے محروم کرکے انہیں اپنی منڈیوں کو  مغربی کمپنیوں کے لیے کھولنےپر مجبور کیا  جاسکتا ہے۔اگرچہ آئی ایم ایف اور دیگر مغربی مالیاتی ادارے دنیامیں مالی استحکام قائم رکھنے کا دعوی کرتے ہیں مگر 1980 کی دہائی میں مشرقی یورپ اور ایشیا کے لیے اُن کی نافذکردہ پالیسیاں ایک مختلف اور بھیانک کہانی سناتی ہیں۔ مغربی مالیاتی اداروں نے کمزور معیشتوں کو سہارا دینے کے بجائے انہیں  تباہ ہوتا ہوا دیکھنے کو ترجیح دی۔۔مثال کے طور پر اَسّی کی دہائی کے آخری سالوں میں پولینڈ میں (بائیں بازوکی) نئی حکومت آئی جس نے خود کو پچھلی حکومتوں کی طرف سے لیے گئے  قرضوں کےبوجھ تلے دبا پایا۔الیکشن مہم میں اصلاحات  سے متعلق وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت کو مالی وسائل کی ضرورت تھی۔چنانچہ پولش حکومت نے امداد کے لیے مغربی مالیاتی اداروں سے رابطہ کیالیکن ان اداروں نے کسی بھی قسم کی امداد مہیا کرنے سے انکار کردیا کیونکہ نئی حکومت ان اداروں کی تجویز کردہ نیو لبرل اصلاحات کرنے پر راضی نہ تھی۔پولینڈ کی حکومت کو قومی اداروں کی نجکاری،  سٹاک مارکیٹ کھولنے اور بجٹ میں عوامی منصوبوں میں کٹوتی پر مجبور کیا گیا جو کہ اُس کے انتخابی وعدوں کے بالکل برعکس عمل تھا۔

    اِسی طریقے سے  ایشین ٹائیگرز (انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملائشیا، ہانگ کانگ، سنگاپور، تائیوان، جنوبی کوریا وغیرہ) کو1997ء کے معاشی بحران کے دوران جب مالی امداد کی ضرورت پڑی تو  آئی ایم ایف نے ان معیشتوں کو بچانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سادہ الفاظ ميں ان کا طرز عمل” معیشتوں کو تباہ کرنے والی آگ کو جلنے دو“ جیسا تھا۔ مالی امداد، جس کی اُن اقوام کو شدید ضرورت تھی، کو روکے رکھنے سے مغرب نے اِن ممالک کے مالی مسائل کو مزید مشکل بنایا اور مالی امداد کے حصول کے لیے آئی ایم  ایف اور امریکہ کی پیش کردہ شرائط ماننے پر مجبور کردیا۔  مثال کے طور پر آئی ایم ایف نے نے جنوبی کوریا کو اس شرط پر مطلوبہ رقم دینے پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ سرکاری نوکریوں میں 50 فیصد کمی کردے گا۔ 

    اِ ن تمام پالیسیوں کا لازمی نتیجہ بڑے پیمانے پر بیروزگاری، تنخواہوں میں کمی اورمقامی صنعتوں کی کمزوری  و خاتمے کی صورت میں سامنے آیا۔

    عراق جنگ کی مثال:-

    عراق میں فوج اور تعمیرات کی نجکاری کے ذریعے امریکہ نے بڑی کمپنیوں کو بے انتہا دولتمند بنادیا۔  بڑے کاروباری اداروں اور حکومتوں کا گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،تاہم عراق میں تعمیرنو کے کام میں حکومت سے اتنے بڑے پیمانے پر ڈالر کمانے کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ بش انتظامیہ نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں حکومت چلانے کو ترجیح دی۔ مینجمنٹ کی زبان میں اسے  “Hollow Shell Model Organization”کہا جاتا ہے،جس میں  مرکزی حکومت صرف اہم فیصلہ سازی اور رقوم کی ترسیل کے اختیارات اپنے پاس رکھتی ہے جب کہ باقی تمام عملی کا م مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد ( outsource) کردیتی ہے۔اِس حکمت عملی کے نتیجے میں تعمیرات اور کان کنی کے شعبے سے وابستہ چند کمپنیوں نے ہوشربا منافع کمایا۔ یہاں تک کہ فوجی اور دفاعی امور کو بھی نجی شعبےکے حوالے کردیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ تنصیبات کی حفاظت کا ذمہ نجی ٹھیکیداروں کو دیا گیا بلکہ فوجی آپریشن، چھاپے، گرفتاریاں، جیلوں کی حفاظت اور تفتیش جیسے امور بھی نجی دفاعی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دے دیے گئے۔ 

    حکومتی نظم ونسق کا یہ ڈھیلا ڈھالا ماڈل(Hollow Shell Model) کارپوریٹ شعبے کے لیے انتہائی کشش رکھتا ہے۔مثال کے طور پر، 2003ء میں بش انتظامیہ نے  نجی کمپنیوں کو مختلف منصوبوں کےلیے327 ارب ڈالر  کے ٹھیکے دیے ۔اسی طریقے سے بش کے دورِ اقتدار میں  پینٹاگون نے  سالانہ270 ارب ڈالر(137 ارب ڈالر اضافہ) نجی ٹھیکوں پر خرچ کیے۔ تعمیرِنو  اور دفاع کے نام پر دیے گئے ان ٹھیکوں میں سے زیادہ تر بغیر کسی بولی  (tendering process)کے براہ راست مَن پسند کمپنیوں کو جاری کیے گئے۔

    اِن کمپنیوں کے منافعوں کو بڑھاوا دینے کے لیے  اِحتساب اور پوچھ گچھ (Audit & Accountability)   کا عمل بھی معطل کردیا گیا۔مثال کے طور پہ عراقی کی عبوری انتظامیہ(Coalition Provisional Authority)،  امریکی انتظامیہ اور Custer Battles نامی   امریکی کمپنی کے درمیان تعمیرِ نو کے ٹھیکوں میں گھپلوں کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی جنگ کا آغاز ہوا۔عراق کی عبوری انتظامیہ نے  عدالت میں ثابت کردیا کہ امریکی کمپنی نے دھوکہ دہی اور جعلی رسیدیں بناکر حکومت سے رقوم حاصل کی ہیں۔لیکن کمپنی کو اس بنا پر کوئی سزا نہ دی جاسکی کہ کمپنی پرعراقی قانون نافذ العمل نہیں تھا اور امریکی  قانون کے مطابق کمپنی کو انصاف کےکٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    مختصرا ًیہ کہ عراق کی تعمیر نو کے نام پر  مغربی ممالک کی بڑی کاروباری کمپنیوں نے لا محدود منافع اور فوائد  حاصل کئے۔

    قطرینہ طوفان کی مثال:-

    یہی معاملہ قطرینہ نامی سمندری طوفان کے دوران پیش آیا۔ اس طوفان نے امریکی شہروں مسی سیپی اور نیو ارلینز کو متأثر کیا۔ اس طوفان کی شدت مسی سیپی میں زیادہ تھی اور نیو اورلینز پہنچتے پہنچتے کم ہو چکی تھی۔اس سے تحفظ کے لیے نیو اورلینز کے سمندری بند کافی ہونےچاہیے تھے، لیکن ان کی دیکھ بھال میں ملٹری انجینئرنگ ڈویژن کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ بند ٹوٹ گئے۔اِس لاپرواہی کے پیچھےسیاہ فام لوگوں کی جان و مال کے تحفظ سے متعلق امریکی سماج کا حقارت آمیز رویہ، نسلی اور طبقاتی تعصب اورنیو لبرل ماڈل کی عوامی  سہولیات کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل پر کٹوتی جیسے اقدامات چھپے ہوئے تھے۔ اِس قدرتی آفت کے دوران ہنگامی صورت حال سے نپٹنے والے امریکی ادارے عوام کو کسی قسم کی سہولیات اور تحفظ دینے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ناکام رہے۔ پانی سے بچنے کے لیے لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر حکومتی امداد کا انتظار کرتے رہے لیکن پانچ دن تک انہیں خوراک اور صاف پانی پہنچایا نہ جاسکا۔  جن لوگوں کے پاس وسائل موجود تھے وہ پہلے ہی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے تھے۔

    اِس انسانی المیے کا شکار سیاہ فام عوام کو فاکس نیوز اور دیگر کارپوریٹ میڈیا ہاؤسز نے لٹیرا اوربدمعاش بنا کر پیش کیا جن سے  قریبی علاقوں میں رہنے والے سفید فام اور خوشحال لوگوں کو خطرہ لاحق تھا۔ پولیس نے مختلف مواقع کےدوران سیاہ فام لوگوں پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں کئی مقامی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ بعد میں پولیس کا یہ عمل قانون سے ماورا ثابت ہوا اور شہری انتظامیہ کو ہلاک شدگان کےخاندانوں کو ہرجانے کی رقم ادا کرنا پڑی۔ دوسری طرف سفید فام شدت پسند گروہ اسلحہ لے کر”سیاہ فام لوگوں کو شکار کرنے کے مواقع تلاش کرتے ہوئے“ شہر میں گھومتے رہے ۔

    پولیس، فوج اور بلیک واٹر جیسی نجی سیکیورٹی کمپنیوں کا عوام کی جانب رویہ َہتک آمیز اور غیر انسانی تھا۔ شہر خالی کروانے کے لیے لوگوں کو بندوق کی نوک پر بسوں میں بھرا گیا۔ اکثر اوقات بچوں کو ان کے والدین سے جدا کردیا گیا۔ یوں تو  اس قدرتی آفت کے دوران ریاست کا اپنے شہریوں کی طرف طرز عمل پریشان کن تھا ہی، لیکن آفت کےٹل جانے کے بعد ریاست کی پالیسیاں زیادہ ہولناک تھیں۔

     اسی دوران کھلی منڈی کے مشہور زمانہ معیشت دان ملٹن فرائیڈ مین کا وال سٹریٹ جنرل میں مضمون چھپا جس میں اس نے سمندری طوفان کے نتیجے میں سکولوں اور گھروں کے ویران ہونےکا ذکر کرتے ہوئے اِسے تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیاں کرنے کے لیے ایک نادر موقع قرار دیا۔ اِسی طرح ریپبلکن پارٹی کے رکنِ کانگریس رچرڈ بیکر نے اِسے سرکاری ہاؤسنگ سکیموں کے خاتمے کا ایک قدرتی اور خوش آئند عمل قرار دیا۔ کچھ ماہ کے اند ر اندر عوامی رہائشی سہولتوں کو ختم کرکے ان کی جگہ مہنگے اور  عالیشان بنگلے تعمیر کردیے گئے  جو عام لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر تھے۔ 

    ماحولیاتی آلودگی اور ریاستی غفلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اِس انسانی المیے سے تیل اور گیس کی صنعت نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ تعمیر نو کے نام پر مزدوروں کی  کم سے کم اجرت اور ماحولیات کے تحفط سے متعلق  قوانین کو معطل کردیا گیا جس کا براہ راست فائدہ تیل اور گیس کی کمپنیوں کو ہوا۔  ان کمپنیوں کو ماحولیاتی تحفظ سے متعلق پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آئل ریفائنریاں تعمیر کرنے اور سمندر میں ڈرلنگ کی اجازت دے دی گئی۔    

    دوسری طرف نیو اورلینز کے بیشتر سکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا جس کے نتیجے میں عام لوگوں کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہوگیا۔  

    سرکاری وسائل کو نجی شعبے کی ملکیت میں دینے کی اِس بہتی گنگا میں تعمیر نو اور سیکیورٹی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں نے خوب ہاتھ دھوئے ، جنہیں بغیر بولی اور نگرانی کے اربوں ڈالر کے ٹھیکے دیے گئے۔ اِسی دوران عوامی سہولیات اور ترقیاتی سکیموں سے متعلق بجٹ میں 40 ارب ڈالر سے زائد کی کٹوتی کی گئی جِس کا براہ راست اثر کم آمدنی والے نچلے طبقے پر پڑا او راُن کی زندگیاں پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہوگئیں۔  

     اختتامیہ:

    پالیسی سازی اور انقلابات کا عمل اتنا سادہ نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ بات چاہےبراعظم جنوبی امریکہ کی جابرانہ حکومتوں کی ہو، جنوب مشرقی ایشیامیں بڑے پیمانے پر کی جانے والی نجکاری کی ہو یا عراق کو تباہ کرکے اس کی تعمیرِ نو کی ہو، حکومتوں اور  معاشی پالیسیوں میں اہم تبدیلیاں صرف عوام کی خواہشات کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہوتیں، بلکہ اس میں نئی منڈیوں کی تلاش کےلیے سامراجی اقوام اورملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    ایک اہم مشورہ:

    اگر آپ واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کی بنائی ہوئی پالیسیوں کی قوتِ محرکہ کیا ہے، تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تلاش کیا جائے کہ ان پالیسیوں سے فائدہ  اور منافع کون حاصل کرے گا۔آج کی دنیا میں کاروبار اور سیاسی نظریات  کو جدا کرنا ناممکن ہوچکا ہے، اس لیے زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ ان پالیسیوں کے اثرات کارپوریٹ میڈیا میں پیش کیے گئے شور شرابے سے کہیں زیادہ گہرے اور پیچیدہ ہوں گے۔

    دیگر اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کریں:

    اپنے ملک کی تاریخ کو گہرائی میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دیگر اقوام کی تاریخ کا بھی بغور مطالعہ کریں۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی معاشرہ باقی دنیا سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر ملک کی کوشش یہی ہوتی ہےکہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنا مثبت تاثر (امیج )قائم کرے۔ تاریخ کی درست اور جامعیت پر مبنی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اور متضاد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اُس کی بنیاد پر اپنی تجزیاتی صلاحیت کو مضبوط اور گہرا بنائیں۔ 

    ماخذات:

    https://lifeclub.org/books/the-shock-doctrine-naomi-klein-review-summary

     https://www.theguardian.com/us-news/2017/jul/06/naomi-klein-how-power-profits-from-disaster

    Share via Whatsapp