رائے کا احترام اور قومی تقاضے
درسی کتابیں ہمیشہ اپنا اثر سب سے زیادہ رکھتی ہیں. جب ایک بہت بڑی طلبہ کی تعداد ان تصورات سے مستفید ہو گی تو یقیناً معاشرے میں اس کے اثرات بھی سامنے آئ
رائے کا احترام اور قومی تقاضے
راؤعبدالحمید۔ لاہور
میری بیٹی حال ہی میں چوتھی جماعت میں پہنچی ہے۔ایک دن میں اس کی کتاب دیکھ رہا تھا، ایک سبق کا عنوان دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔عنوان ہے "رائے کا احترام"... مکالمے کے اس فقدانی دور میں بچوں کی درسی کتاب میں یقیناً یہ خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے۔یہ سبق مکالمہ ہے ماں اور بیٹے کے درمیان، تحریر کچھ اس طرح سے ہے کہ، اگلے دن بیٹے عدنان کی کلاس کے لیے مانیٹر کا الیکشن ہے۔عدنان ماں سے الیکشن، امیدوار کی خصوصیات، جمہوریت بارے سوال کرتا ہے، ماں اس کو مدلل انداز سے جواب دیتی ہے۔
اس سبق کے کچھ اقتباسات نقل کرتا ہوں، آپ کو بھی اچھا لگے گا۔
1۔ "ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر کام باہمی مشورے سے کیا کرو۔ کلاس کے الیکشن کا مقصد بھی یہی ہےکہ مانیٹر کا انتخاب میں سب کی رائے لی جائے۔اسی طرح کوئی اچھا طالب علم پوری کلاس کا نمائندہ ہو"۔
2۔ "ووٹ حقیقت میں رائے اور مشورہ ہی ہے"۔
3۔ "آپ جس کو بھی ووٹ دیں اس میں چند خوبیاں ہونی چاہییں۔پہلی بات یہ ہے کہ جس کام کے لیے اس کو ووٹ دیا جاتا ہے وہ اس کا اہل ہو۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ دیانت دار ہو اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہو"۔
4۔ " یاد رکھیں کہ ہر معاملے میں ہر شخص کی رائے ایک جیسی نہیں ہوتی۔آپ کے بہترین دوست بھی بہت سے معاملات میں آپ کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔اگر کسی کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہوتو ہمیں اس سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔اصول یہ ہے کہ آپ اپنی رائے دیں، لیکن کثرت رائے سے جو فیصلہ ہو، اسے خوش دلی سے قبول کریں۔ اس کو جمہوری رویہ کہتے ہیں "۔
5۔ " ہمارے ملک کا پورا نام 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' ہے۔جمہوریہ اس ملک کو کہتے ہیں، جہاں عوام کی اکثریت کے مشورے سے حکومت بنائی جاتی ہے۔عوام سے ووٹ کی صورت میں رائے لی جاتی ہے، ہمارے ملک پاکستان میں بھی اسی طرح ہوتا ہے "۔
یہ کتاب "یکساں قومی نصاب 2020ء کے مطابق، پروگرام برائے تعلیمی اصلاحات، حکومت پنجاب نے سکولوں میں نافذ کی ہے۔ درسی کتابوں میں ایسے موضوعات پڑھائے جائیں تو یقیناً معاشرے میں مکالمہ کو فروغ ملے گا۔مکالمہ ہی قومی شعوری ترقی کا ضامن ہے۔ہمارے ہاں بحث و مباحثہ، گالی، دھونس ،دلیل سے عاری گفتگو کا غلبہ ہے۔کسی دوسرے کی بات کو سننا، اس کا احترام کرنا، مناسب الفاظ سے تنقید کرنے کا انتہائی فقدان ہے۔
درسی کتابیں ہمیشہ اپنا اثر سب سے زیادہ رکھتی ہیں۔جب ایک بہت بڑی طلبا کی تعداد ان تصورات سے مستفید ہوگی تو یقیناً معاشرے میں اس کے اثرات بھی سامنے آئیں گے۔یہاں معاملہ تھوڑا سا گھمبیر ہوچکا ہے، پرائیویٹ مافیا نے یکساں قومی نصاب کو اپنے سکولوں میں رائج کرنے سے منع کر دیا ہے۔سابقہ حکومت کافی حد تک اس مشن کو نافذ کر چکی تھی، لیکن یہ اچھا سلسلہ پھر سیاست اور مافیا کی نذر ہو چکا.... لیکن پھر بھی امید کا دامن پکڑے رکھنا چاہیے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی تقاضوں اور ضرورتوں کا ادراک کیا جائے اور نئی نسل کی ایسی تربیت کی جائے جو مستقبل میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی ہو، اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھے۔