شاک ڈاکٹرائن کیا ہے؟ (حصہ اوّل)
سرمایہ دارانہ سامراجی ممالک پوری دنیا میں مصنوعی بحران پیدا کرکے یا قدرتی طور پر پیدا شدہ بحرانوں کی آڑ میں استحصالی معاشی پالیسیاں نافذ کرتے ہیں
شاک ڈاکٹرائن کیا ہے؟ (حصہ اول)
سہیل مجاہد ، محمد عثمان۔فیصل آباد
تعارف: درج ذیل تحریر ناؤمی کلائین کی کتاب (The Shock Doctrine: The Rise of Disaster Capitalism) کاتعارفی خلاصہ ہے۔ ناؤمی کلائین کینیڈا سے تعلق رکھنے والی مصنف، سماجی کارکن اور فلم میکرہیں اور آج کل امریکہ کی Rutgers University میں میڈیا،ثقافت اور حقوق نسواں کے شعبے کی چیئرمین ہیں۔آپ سرمایہ داری نظام، عالمگیریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے انسانیت پر کیےجانے والے استحصال اور ماحول کی تباہی کی سخت ناقد ہیں اوران موضوعات پر کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔
اِس کتاب میں مصنفہ نےشاک ڈاکٹرائن کے نام سے ایک نئی اصطلاح کو متعارف کروایا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سامراجی ممالک پوری دنیا میں مصنوعی بحران پیدا کرکے یا قدرتی طور پر پیدا شدہ بحرانوں کی آڑ میں استحصالی معاشی پالیسیاں نافذ کرتے ہیں جس سے عوام کی زندگیاں دوبھر ہوجاتی ہیں اور چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہوجاتاہے۔ان بحرانوں (مثلاً جنگ، فوجی بغاوت، دہشت گردوں کے حملے، معاشی منڈی میں گراوٹ اور سیلاب، سمندری طوفان جیسی قدرتی آفات وغیرہ) کے دوران لوگوں کی توجہ غیر ضروری اور سطحی موضوعات میں الجھائی جاتی ہے تاکہ وہ استحصال کرنے والی پالیسیوں کا جائزہ نہ لے سکیں اور ان کی مخالفت نہ کرسکیں۔موقع ملنے پر یہی کام تیسری دنیاکے ممالک کی حکومتیں اور سرمایہ دارطبقات اپنےمعاشرے میں کرتے ہیں۔آج پوری دنیا” کرونا “نامی وباء کے نتیجے میں جس بحران سے گزر رہی ہے، اُس میں جہاں ایک طرف کروڑوں لوگ بیروزگار ی کا شکار ہوکر غربت کی دلدل میں دھنس رہے ہیں، وہیں دوسری طرف جیف بیزوس جیسے چند عالمی سرمایہ داروں کی دولت میں ہوشربا اضافہ بھی ہورہا ہے۔پاکستان کے سرمایہ دار بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے نہ صرف حکومت سے پرکشش مراعات حاصل کررہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو نوکریوں سے بھی نکال رہے ہیں اور کوئی ریاستی ادارہ انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔سرمایہ دار مالکان کی کوشش یہی ہے کہ آئندہ اپنی فیکٹریوں میں
مزدور وں کو روزانہ اجرت کی بنیاد پر رکھا جائے تاکہ کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکے اور مزدور طبقے کو حاصل رہی سہی مراعات بھی چھین لی جائیں۔
کیا آپ نے غور کیا ہے کہ آج کل میڈیا قدرتی آفات، تنازعات اور معاشی بحرانوں کی طرف اِتنا متوجہ کیوں ہے؟اِس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اِن آفات، تنازعات اور بحرانوں پر مبنی خبریں میڈیا ہاؤسز کے منافعوں میں اضافہ کرتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ خبریں معاشی سیڑھی کے سب سے اوپر موجود اشرافیہ کےلیے بھی انتہائی سودمند ہیں۔ کینیڈین مصنف اور سماجی کارکن ناؤمی کلائن نے 2007ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Shock Doctrine: The Rise of Disaster Capitalism
میں اسی مسئلے پہ بحث کی ہے۔
ان کی کتاب کے تعارف میں ہم درج ذیل اہم نکات پر بات کریں گے۔
معاشی مداخلت اور بجلی کے جھٹکوں کےذریعے علاج میں کیا مشترک ہے؛
آزاد منڈی (free market) کی معیشت نے کس طرح چلی کو معاشی طور پردنیا کے ناہموار ترین ممالک میں سےایک میں تبدیل کردیا؛
عراقی حکومت کو کس طرح کھلی ڈکیتی کے ذریعے اپنی 95فی صد آمدنی سے محروم کردیا گیا۔
شاک ڈاکٹرائن کی اصطلاح کا تاریخی پس منظر:-
علمِ نفسیات کی پوری تاریخ میں سائنس دانوں اور ماہرین ِتعلیم نے اس سوال پر غوروفکر کیا ہےکہ نفسیاتی مصائب میں مبتلا افراد کا علاج کیسےکیاجائے۔بیسویں صدی کے وسط تک نفسیاتی علاج کے بیشتر طریقے نفسیاتی توڑ پھوڑ کم کرنےاور مریض کوتندرست بنانے پر مرکوز تھے۔ لیکن سی آئی اے نے تفتیشی عمل میں نفسیاتی جھٹکوں کے ذریعے افراد کی شخصیت کومکمل تبدیل کرنےکی کوشش کی۔ڈاکٹرایون کیمرون ( Dr. Evan Cameron) نے (علم نفسیات کا منفی استعمال کرتےہوے) جھٹکوں سےعلاج (Shock Therapy) کے ذریعے فرد کو نفسیاتی طور پر مجروح کرنا اور پھر نئے سرے سے اس کی ذہنی تشکیل کرنے کا طریقہ وضع کیا۔
سی آئی اے کی مالی امداد سےڈاکٹرکیمرون نےکئی تفصیلی تجربات کیے جن میں کسی انسان کو بجلی کےجھٹکوں سے گزارا جاتا جس سےاسے نفسیاتی دورے پڑنے لگتے۔کیمرون نے تجربات کے دوران محسوس کیا کہ ایسے لوگ پہلےاپنا ذہنی توازن کھوکر بچگانہ حرکات کرتے اور پھر مستقل الجھاؤ اور لاتعلقی کی ذہنی کیفیت میں چلے جاتے۔ کیمرون کا خیال تھا کہ اس حالت میں یہ لوگ’خالی تختی‘ کی مانند ہوجاتے ہیں جس کے اوپر اپنی مرضی کا کچھ بھی لکھ کر ان کو نئی اور بہتر انسانی شناخت دی جاسکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ شناخت کی تبدیلی کایہ فارمولہ کامیاب نہ ہوسکا۔کیمرون نے ان قیدیوں سے ان کی شناخت تو چھین لی لیکن انہیں نئی شناخت نہ دی جاسکی۔
کیمرون نےمطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اپنا طریقہ کار بدلنے کے بجائے اپنے تجرباتی مریضوں پرتشدد، ذہنی الجھاؤ، طویل تنہائی ، برقی جھٹکوں اوراحساسات کو مفلوج کرنیوالی ادویات کا استعمال خوفناک حد تک بڑھا دیا۔اسی دوران سی آئی اے کوشاک تھیراپی یعنی جسمانی اور ذہنی جھٹکوں کے ذریعے معلومات اگلوانے اور انسانوں کو اپنا فرمانبردار بنانے کا خیال آیا۔ شدید تنہائی میں انسانی حواس کو معطل کرنا اور وقت کے شعور کو مسخ کر کے(قید میں موجود انسان کو وقت کا احساس نہ ہونے دینا کہ وہ کب سے قیدمیں ہے اور باہر کی دنیا کیسی ہے)انسانوں کوپریشان کرنے کے عمل نے قیدیوں میں ہوش و حواس برقرار رکھنا ناممکن بنادیا جس سے سی آئی اے کے تفتیش کاروں کو قیدیوں سے معلومات نکلوانے میں مددملی۔مزیدبرآں، قیدِ تنہائی کے ساتھ تیز روشنی اور اونچی آواز میں موسیقی کے استعمال سے بھی انسانوں کو ذہنی طور پہ مفلوج کرکے معلومات اگلوانے میں کامیابی ملی۔ ان تمام تجربات اور معلومات کو کیوبرک مینول (Kubark Manual) نامی دستاویز میں جمع کردیا گیا تاکہ مستقبل میں اس دستاویز کےذریعےجدید(اور وحشیانہ ) تفتیشی طریقہ کار (مہذب زبان میں تشدد) میں مدد اور راہنمائی لی جاسکے۔
شاک ڈاکٹرائن کا طریقہ واردات:-
شاک ڈاکٹرائن کا طریقہ وارات درج ذیل ہے۔
الف۔ معاشرے میں کسی قدرتی بحران کا انتظار کیا جائے یا پھر مصنوعی بحران پیدا کیا جائے۔
ب۔ خطرے اور خوف کی فضا پیدا کرکے صورت حال کو غیر معمولی قرار دے دیا جائے۔
ج۔ انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں پر پابندیاں لگائی جائیں۔
د۔ سرمایہ دارانہ طبقات کے مفادات پر مبنی پالیسیوں کو جلد از جلد نافذ کردیا جائے۔
کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال یامعاشی بحرا ن کے دوران حکمران طبقات گھبرائی ہوئی عوام کو یہ بیانیہ بیچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ سماجی تحفظ کے پروگرام ختم کرنا اور نجی سرمایہ دار شعبے کو بڑے بڑے امدادی پیکج دینا انتہائی ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں پورا معاشی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا۔
کھلی منڈی کی معیشت کے ماہرین نے معاشی جھٹکوں سے علاج کی تکنیک مرتب کی تاکہ بحران کے دنوں میں تکلیف دہ معاشی اصلاحات کو بالجبر نافذ کیا جاسکے۔ایک بحران زدہ اور تباہ حال معاشرت کی کوکھ سےنئےعالمی نظام کےقیام کاخیال نیا نہیں ہے، البتہ ایسے ممالک، جو کھلی منڈی سے تعاون کرنے کو تیار نہ ہوں،ان کی معیشت کو تباہ کر نا اور تعمیرنو کے نام پہ ان کا استحصال کرناسامراجی حکمت عملی کا ایک نیا طریقہ ہے۔ شاک تھیراپی کے نظریے سے متأثر ہو کرملٹن فرائیڈمین (مشہور امریکی ماہرِ معاشیات جسے 1976 میں نوبل انعام دیا گیا) اورشکاگو سکول آف اکنامکس میں ان کےساتھیوں نےمعاشی شاک تھیراپی کا نظریہ دیا جس کے ذریعےمختلف ملکوں میں بے رحم اور عوام کے لیے تکلیف دہ معاشی پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ شکاگوبوائز (Chicago Boys) کے نام سے مشہور اِن معیشت دانوں کی نظرمیں اچھی حکومت وہ ہےجو کم سے کم اختیارات کی مالک ہو اور ظاہر ہے کہ اِس اصول کا گہرا تعلق معاشی منڈیوں سے بھی ہے۔ اس لیے انہوں نےکھلی منڈی پر مبنی سرمایہ داری ( Free Market Capitalism ) کی حمایت کی جو بقول ان کے جمہوریت، امن اور ِاستحکام کی ضامن ہے۔
تاہم، اس سارے عمل کے دوران اُن کویہ احساس ہو چکا تھا کہ عوام نئی معاشی پالیسیوں کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنےمعاشی حقوق (یونین سازی کاحق اور سماجی تحفظ کے اداروں پر حکومتی وسائل کا استعمال) کسی صورت کھونا نہیں چاہیں گے۔ایسے میں ان معیشت دانوں کےسامنےواحدحل معاشی شاک تھیراپی کی صورت میں سامنے آیا ۔اس کے بعد مختلف ممالک میں آفات اورمعاشی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھٹکوں اور غیر یقینی کیفیت سے فائدہ اٹھا کر وہاں نئی معاشی پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ آگے چل کر شگاگو بوائز نے اس امر کو یقینی بنایا کہ وہ سماج میں آنے والے بحرانوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اس امر کوممکن بنانے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ معیشت دانوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے۔
انہوں نے لاطینی امریکہ کے تعلیمی اداروں اور شکاگو یونیورسٹی میں طلبا کے باہمی تبادلے کا پروگرام شروع کیا تاکہ لاطینی امریکہ کے طلبا اپنے ملکوں میں واپس جا کر کھلی منڈی اور سرمایہ دارانہ نظام کے معجزاتی فوائد بتا کراُن کے لیے عوامی رائے عامہ ہموار کرتے رہیں اور(قدرتی یا مصنوعی طور پر پیدا کردہ )بحرانوں کے دوران معاشی اصلاحات کوبآسانی نافذ کرتے رہیں۔ شگاگوبوائز کی حکمت عملی کے پیچھےیہ مرکزی نظریہ کارفرما تھاکہ اگر لبرلزم کی معاشی پالیسیاں تیزی اور سختی سے لاگو کی جائیں تو ان کی مخالفت کرنا ناممکن ہوتا جائےگا۔
عوام دشمن معاشی اصلاحات کےنفاذ کے لیے آمریت اور ریاستی جبر کے ہتھکنڈے:-
بیشتر اوقات شاک تھیراپی پر مبنی معاشی اصلاحات کو آمریت پر مبنی ریاستی جبر کے ذریعے تقویت دی گئی۔ کسی ملک میں معاشی نظام کی تبدیلی (اور کھلی منڈی کے فروغ)کے لیے محض معاشی بحران پیداکر کے وہاں کی عوام کو تابع نہیں کیا جا سکتا بلکہ عوامی غصے کو کچلنےکے لیے حکمرانوں کوبعض اوقات جمہوری حقوق معطل کرنے جیسے سخت اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں۔ عوام کے غم و غصے کی بنیادی وجہ کھلی منڈی کی معیشت کے نفاذ اور بچت (austerity measures)کے نام پر سماجی تحفظ کے اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیروزگاری ہوتی ہے۔
2003ء میں عراق پہ فوجی حملے کے بعد عبوری حکومت کا قیام عوام کے جمہوری حقوق کی معطلی کی واضح مثال ہے۔امریکہ نے عراقی عوام سے صدرصدام حسین کو ہٹانے کے بعد شفاف انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا مگر جب سرکردہ عراقی راہنماؤں نے عراقی تیل کی صنعت کی نجکاری سے انکار کردیا تو امریکی منتظم پال بریمر(Paul Bremer) نے ان کو اختیارات سے محروم کرنے کے لیے(امریکہ کی وفادار) عبوری حکومت قائم کی اور یہ کہتے ہوئے کہ ’عراقی عوام ابھی جمہوری انتخابات کے لیے تیار نہیں ، انتخابات منسوخ کردیے۔
اِسی طرح جنوبی امریکہ کے جنوبی علاقے (ارجنٹائن، یوراگوئے، چلی) جو کہ شکاگو بوائز کے تجربات اور نظریاتی جنگوں کا مرکز تھے، میں لوگوں کے اکٹھا ہونے اور سیاسی اختلاف رائے کے اظہار پر مکمل پابندی لگادی گئی۔کھلی منڈی پر تنقید کرنے والوں کے منہ بالجبر بند کرکے عوام کو غیرمقبول معاشی اصلاحات قبول کرنے پر مجبور کیاگیا۔وہاں کی حکومتوں کے ذریعے وسیع پیمانے پرانسانی حقوق کی پامالی کی گئی تاکہ لوگ تشددکی دہشت سےخوفزدہ ہوکراپنے معاشی حقوق سے پیچھے ہٹ جائیں۔
اس کی سب سے خوفناک مثال جنوبی امریکہ کے ملک چِلی (Chile) کی ہے جہاں ایک فوجی آمرجنرل آگسٹے پنوشے نےاپنےدورِ اقتدار کے ابتدائی زمانے میں تشدد سے 3200 لوگوں کو مروایا یا غائب کروا دیا، 80 ہزار لوگوں کو جیلوں میں ڈالا اور دو لاکھ لوگوں کو مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا۔ مجموعی طور پر جنوبی امریکہ کے جنوبی خطے میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو ایسی جیلوں میں ڈالا گیا جہاں تشدد اور جبر کے ذریعے ان کی قوتِ ارادی کو توڑا گیا۔ جبروتشدد کایہ عمل کسی پاگل آمرکی ذہنی اختراع نہیں تھا بلکہ (شکاگو بوائز کی پیش کردہ پالیسیوں کے ما تحت) لوگوں کو اپنا فرماں بردار بنانے کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
معاشی شاک تھیراپی کے کامیاب نفاذ کےلیے ضروری ہے کہ سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو مکمل طور پر خاموش یا ختم کردیا جائے۔سیاسی مخالفین معاشی شاک تھیراپی کا براہ راست ہدف نہیں ہوتے، لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والے معاشی اقدامات اتنے تکلیف دہ اور نامقبول ہوتے ہیں کہ حکومتوں کی مجبوری بن جاتی ہےکہ وہ کسی بھی قسم کی عملی یا نظریاتی مخالفت کو وحشیانہ جبر کے ذریعے مٹا دیں۔ایسے ممالک جہاں قومی خودارادیت اور مزدوروں کی یکجہتی کی مضبوط تاریخی روایت موجود ہو، وہاں کی حکومتوں کو ان غیر مقبول اور استحصالی معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے پر بہت سی رکاوٹوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ان خطرات میں سب سے اہم خطرہ ایک منظم اور ملک گیر عوامی بغاوت کا موجود ہونا ہے ،جس کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے۔مثلا ًعراق میں باغیوں سے لڑائی کے نام پر امریکہ اور اس کی حلیف افواج نے عراقی عوام کو بلا امتیاز قید، تشدد اور وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا، تاکہ ناجائز امریکی قبضے کے خلاف کوئی منظم مقامی مزاحمت سامنے نہ آسکے۔
اس عوامی بغاوت سے بھی زیادہ خطرناک وہ نظریاتی مخالفین ہوتے ہیں جو کہ عوام میں قابض حکمران طبقات کے خلاف نفرت اور بیزاری پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی امریکہ میں بڑی تعداد میں بائیں بازو کے دانشور، راہنما اور کارکن جیلوں میں ڈالےگئے، مار دیےگئے یا پھرجلاوطن کر دیے گئے۔1976ء میں پنوشے کی زیرقیادت، چلی میں کی جانے والی معاشی اصلاحات کے دوران 80 فی صد سیاسی قیدی مزدور اور کسان تھے ۔ یہی حال ارجنٹائن کا تھا جہاں قید اور تشدد کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت یونین مزدوروں اور کاشتکاروں کی تھی جو زرعی اصلاحات اور سماجی تحفظ کے منصوبوں کا مطالبہ کررہے تھے۔
جنوبی امریکہ میں ریاستی تشدد ، جبری گمشدگیاں او رسرکاری سرپرستی میں قتل اتنا عام ہوگئے تھے کہ لوگوں کے ذہنوں میں دہشت اور خوف بیٹھ گیا تھا جس کے نتیجے میں لوگوں نے احتجاج کرنا چھوڑ دیا۔اس طرح نیولبرل معاشی اصلاحات کے نفاذ کا عمل کامیابی سےجاری رہا۔ حکومتوں کو سیاسی میدان میں کسی قسم کی خاطر خواہ مزاحمت کا سامنا نہیں تھا اور وہ سیاسی مخالفین کو بآسانی دہشت گرد قرار دے کر اُن کے خلاف کاروائی کرسکتی تھیں اور مخالف نظریات رکھنے والوں کو پراپیگنڈا کے زور پربدنام کرواسکتی تھیں۔سیاسی تبادلہ خیال اور سیاسی عمل کی گنجائش ختم ہوجانے کی وجہ سے لوگوں کے پاس استحصالی معاشی اصلاحات اور جابر حکمرانوں کو قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔
1970ء کی دہائی میں نافذ کی گئی معاشی شاک تھیراپی کے نتیجے میں انسانی آبادیوں میں غربت، پسماندگی اور خوف و ہراس کا غلبہ قائم ہوا۔ معاشی جھٹکوں کا یہ عمل (Economic Shock Therapy) لوگوں کو اپنی روائتی سوچ بدلنے او ر کھلی منڈی پر مبنی معیشت کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے۔معاشی اصلاحات کے اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ارجنٹائن میں معاشی جھٹکوں اور ریاستی بربریت کا بیک وقت استعمال کیا گیا۔لیکن ان معاشی جھٹکوں کے انتہائی بھیانک معاشرتی نتائج ظاہر ہوئے۔ ریاستی اداروں کی نجکاری، بچت کے نام پر عوامی فلاح کے منصوبوں کی کٹوتی اور مزدوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کے خاتمے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی۔ اِسی طرح بنیادی ضرورت کی اشیا (پانی، روٹی، گھی) کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے سے مزدوروں کی محنت کی کمائی بے وُقعت ہونے لگی اور مہنگائی ، بھوک اور غربت کےطوفان نے جنم لیا۔
ارجنٹائن کے حکمران Juan Perón نے عوام کے ذہنوں میں خوف اور دہشت پھیلانے کا نسبتاً مخفی اور بالواسطہ طریقہ اپنایا۔اپنے عوام کو خفیہ ٹھکانوں میں رکھ کے تشدد اور قتل کے بعد غائب کرکے ایسی مثالیں قائم کی گئیں تاکہ بقیہ لوگ عبرت حاصل کریں اور ریاستی پالیسیوں پر اختلاف یا احتجاج کی ہمت نہ کریں۔ اگرچہ قتل ہونے والوں کی تعداد کم تھی، لیکن پھر بھی عوام میں یہ تأثر پیدا کرنے کے لیے کافی تھی کہ نبو لبرل معاشی اصلاحات کے نفاذ کے لیے حکومت کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔اس جبر و تشدد کے نتیجے میں عوام میں ایک خاص قسم کا خوف اور یاسیت پیدا ہوئی۔لوگ استبدادی حکومتوں کے خلاف کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے کے حوالے سے یا تو خوفزدہ ہوچکے تھے یا پھراُن کے مالی حالات اس حد تک خستہ ہوچکے تھے کہ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ بحال رکھنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔
درج بالا مثالیں واضح کر رہی ہیں کہ چونکہ معاشی شاک تھیراپی کا طریقہ کاراصلاحات نافذ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے بیشترحکومتیں ریاستی جبر اور تشدد کو بھی اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ معاشی جھٹکوں پر مبنی پالیسیوں کا فائدہ کسے ہوتا ہے؟ اگلے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ اس ضمن میں کچھ طبقات فائدہ اٹھانے والے اور کچھ دوسرے خسارہ پانے والے ہوتے ہیں۔