اسلام کے مقاصد
اسلام کے مقاصد کا مختصر تعارف
اسلام کے مقاصد
محمودالحسن۔ راولپنڈی
اللہ تعالی نے اپنے مقرب بندوں کے ذریعے ہم تک یہ بات پہنچائی کہ وہ بنی نوع آدم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ کریم نے تمام مخلوقات میں سے اشرف مخلوق یعنی انسان کے لیے بہت سی عمدہ نعمتیں پیدا فرمائیں کہ اس کائنات میں بھی خوش و خرم رہے اور اس کائنات کے بعد اس کے لیے نہ ختم ہونے والی نعمتوں بھری جنت بھی بنائی، اس لیے انسان پہ لازمی ہوا کہ وہ بھی اتنے پیار کرنے والے اپنے رب کو ہر وقت یاد رکھے اور اس کی نعمتوں کا شکر کرے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں کہ انسان کو کوئی تکلیف پہنچے، چاہے اِنفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پریا انسان خود انجانے میں اپنے لیے کوئی تکلیف کا سبب بنا لے۔ تو اللہ تعالیٰ نے منتخب نمائندوں کو وہ تمام اصول بتائے کہ انسان کیسے زندگی گزارے، تاکہ ایک دوسرے کے لیے دکھ تکلیف کے بجائے سکون و راحت کا باعث بنیں اور ان کو اپنا تعارف بھی کروایا اور بتایا کہ کیسے وہ اپنے رَب کو یاد کریں۔
اَب جو انسان اپنے رَب کا حکم مانتے ہیں اور دوسروں کے لیے سکون کا باعث بنتے ہیں تو اللہ ان سے خوش ہوتے ہیں۔ اور جو بات نہیں مانتے اور دوسروں کے لیے دکھ درد کا باعث بنتے ہیں،ان سے ناراض ہوتے ہیں۔اور جب ایسے لوگ اپنے ظلم میں آگے بڑھنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان سرکش بگڑے ہوئے لوگوں سے مقابلہ کرو کہ وہ ظلم سے باز آجائیں اور جو لوگ ظلم کا شکار ہوگئے ہیں، ان کو ظلم سے نجات دِلاؤ، اور اس نظامِ ظلم کے نتیجے میں جو انسان اپنے رَب کا حقیقی تعارف بھلا چکے ہیں۔ ان کو اپنے رَب کی نعمتیں یاد دلاؤ اور ان کو اپنے رَب کا تعارف کراکر معاشرے کا کارآمد فرد بناؤ،تاکہ انسانیت دوبارہ اجتماعی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب بندے انبیائےکرام علیہم السلام ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں سے ہمیں یہی مندرجہ بالا سبق ملتا ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کے جو واقعات بتائے ہیں۔ ان میں انبیاعلیہم السلام نے اپنی قوموں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی سے منع فرمایا اور دوسرا اپنے رَب کا حقیقی تعارف کرایا۔ جو لوگ ظلم سے باز نہیں آئے، ان سے جنگ تک کی۔ اپنی اقوام کو ظلم سے نجات دِلائی اور سمجھایا کہ ان کا رَب کون ہے۔
نبی پاک حضرت محمدﷺ کی زندگی کو قرآن نے ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ کی زندگی سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ آپﷺ کے اخلاق عمدہ اور دوسروں کے لیے سکون کا باعث تھے اور آپﷺ نے ہمیں رب کریم کا تعارف کرایا۔مشہور حدیث جبرائیل علیہ السلام بھی اسی پیرائے میں ہے، جس میں نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں تشریف فرما ہوتے ہیں اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک انسان کے روپ میں آتے ہیں اور چند سوال پیش کرتے ہیں کہ ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ ان سوالوں کے حضور اکرمﷺ جواب ارشاد فرماتے ہیں،تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تربیت کی جاسکے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا اور انسانوں کی خدمت کرنا اور اس خدمت کا صلہ صرف اللہ کی رضا میں تلاش کرنا۔ اگر اس کو مزید مختصر کریں تو اسلام کا تعارف خداپرستی اور انسان دوستی کا بنتا ہے۔ اَب اس مقدسِ عمل کے راستے میں رسول اللہﷺ کو جو رکاوٹیں پیش آئیں، ان کو وقت کی بہترین حکمتِ عملی کے ساتھ ہٹایا گیا، اپنی قوم کو ظالموں سے نجات دِلائی اور اپنے ایسے صحابہ تیار کیے، جنھوں نے دنیا سے ظلم کو مٹایا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جو آج ہم تک پورے تسلسل کے ساتھ پہنچا اور دنیا کو کم و بیش ہزار سال تک اسلام کے ثمرات بانٹتا آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین!