بین الجامعاتی مقابلہ مضمون نویسی کا طائرانہ جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بین الجامعاتی مقابلہ مضمون نویسی کا طائرانہ جائزہ

    2047 کے پاکستان کے حوالے سے نوجوان نسل کی امنگیں اور ان کی حقیقت کیا محض امنگوں سے ملک ترقی کر سکتا ہے ؟

    By UMER ILTAF Published on Sep 07, 2022 Views 719
    بین الجامعاتی مقابلہ مضمون نویسی کا طائرانہ جائزہ
    تحریر؛ راجہ عمر الطاف ایڈووکیٹ ۔ راولپنڈی 

    تحریر کا پس منظر
    سوشل میڈیا پر ایک اشتہار نظر سے گزرا جو ہائرایجوکیشن کمیشن (HEC) کی طرف سے شائع کیا گیا تھا، جس میں "انٹریونیورسٹی مضمون نویسی مقابلے" کے انعقاد کا ذکر اور امتیازی حیثیت پانے والوں کے لیے انعامات کا ذکر تھا۔ 
    مقابلے کے لیے دو موضوع دیے گئے تھے۔
    1- "پاکستان کی ترقی کا سفر (1947ء سے 2022ء)، ترقی پذیر ممالک سے تقابلی جائزہ"
    2- "2047ء کا پاکستان، نسل نو کی اُمنگیں" ۔ 
    دوسرا موضوع میری توجہ کا مرکز بنا، اور اس پر لکھنے کو جی چاہا۔ مگر یہ مقابلہ جامعات میں زیرتعلیم طلبا وطالبات کے لیے تھا۔ اس لیے میں اس میں حصہ لینے سے قاصر تھا۔ پھر سوچا کہ اس موضوع پہ لکھ کر اشاعت کے لیے بھیجا جاسکتا ہے۔ 
    اسی غرض سے دوسرے موضوع پہ توجہ مرکوز ہوئی اور یہ سوالات ذہن میں آئے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کی۔ 
    1- 25 سال بعد ملک کے خط وخال کیا ہوں گے؟
    2- کتنا ترقی یافتہ ہوگا اور لوگ کتنے خوش حال ہوں گے؟ 
    جواب یہ ہے کہ 2047ء کا پاکستان ویسا ہی ہو گا، جیسی جدوجہد کی جائے گی۔ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عمل کے لیے کسی نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے اور نتیجہ آتا ہے ۔ اَب ہم اگر وطن ِعزیز کے حالات پر غور کریں تو یہ روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ یہاں کا علم جس کے مطابق عمل ہوتا ہے، وہ سرمایہ دارانہ اصولوں پر مشتمل ہے۔ یہاں جو بھی عمل ہوا یا ہوگا وہ اسی کے تحفظ میں ہوگا۔ اس نظام میں رہ کر جس زاویہ سے بھی سوچا جائے تو مسلط ظالم سرمایہ دارانہ نظام ہی اس ملک کی ترقی میں رکاوٹ نظر آتا ہے۔ پہلے موضوع پہ غور کیا جائے تو دوسرے موضوع کا جواب اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس ظالمانہ نظام نے جو پچھلے 75 سالوں میں دیا، وہ ہی آگے دے گا۔ بلکہ ہر آنے والا سال گزرے سال سے بدتر ہی ہوتا ہے اور اس کی تصدیق سماج کے عمر رسیدہ بزرگوں سے اور ترقی و مہنگائی کے قومی اعداد و شمار سے کی جا سکتی ہے۔ یہاں عام انسان دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر سکتا،علاج معالجہ کا اچھا نظام میسر نہیں،تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق عام آدمی کی دسترس میں نہیں جو ترقی ہوئی بھی، اس کی قیمت عام آدمی نے ادا کی اور کر رہا ہے۔ ان سب حالات کی وَجہ، وہ سرمایہ داریت ہی ہے، جس کے تحت یہ نظام قائم ہے۔ 
    اَب موضوع کے دوسرے حصے "نسل نو کی اُمنگیں" پر بات کرتے ہیں۔ اس میں اُمنگوں، آرزؤں اور خواہشات کی بات ہے۔ اس جہاں میں ایسا شاید ہی کوئی شخص ہو جو اچھائی کی خواہش نہ رکھتا ہو، لیکن کیا محض خواہشات کی بنیاد پہ اس کا گمان کیا جا سکتا ہے؟ 
    اس سوال کا حل مولانا مفتی  عبدالخالق آزاد رائے پوری کا درس قرآن نظر سے گزرا جو مجلہ ماہنامہ رحیمیہ، اگست 2022ء میں شائع ہوا۔ جسے پڑھنے کے بعد مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رح کا قول یاد آیا کہ "اگر کسی انسان کو صالح مربی مل جائے تو یہ اس کے لیے عظیم الشان نعمت اور مفید دولت ہے۔"
     ہمارے مربی ہم پر خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ راقم کے بہت سے سوالات کے جوابات ان کے دروس، خطبات اور صحبت میں بیٹھنے سے مل جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا سوال کا جواب بھی انھی کے درس قرآن سے ملا، جس میں آپ نے بڑی خوب صورتی سے واضح کیا کہ محض تمناؤں اور آرزؤں سے کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، بلکہ اس کے لیے صحیح علم ضروری ہے، جس پر اعمال کی بنیاد ہے۔ اس ضمن میں مفتی صاحب نے قرآن کریم کی ایک آیت ذکر کی جس کا ترجمہ یہ ہے ؛ 
     "نہ تمھاری امیدوں پر اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر مدار ہے۔ جو کوئی بُرا کام کرے گا اس کی سزا پائے گا، اور اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں پائے گا۔ اور جو کوئی اچھے کام کرے گا، مرد ہو یا عورت اس حال میں کہ وہ مؤمن ہو، سو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے"۔ (سورۃ النساء، آیت نمبر ؛ 123-124) 
    اس سے واضح ہوتا ہے کہ محض اُمنگیں لگانا مسئلہ کا حل نہیں، بلکہ قوم میں صحیح علم سے، درست سمت میں جدوجہد سے، ملک و قوم کے حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔ نسل نو کی امنگیں تو ہیں، لیکن کیا اس نظام میں اتنی سکت ہے کہ وہ نسل نو کی امنگوں پر پورا اتر سکے۔ یہاں کا نوجوان جب جامعات سے فارغ التحصیل ہوتا ہے تو یہ نظام اسے قبول کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے۔ پھر وہ مجبوری میں یورپ و عرب ریاستوں کا اسیر بنتا ہے اور اپنی تمام صلاحیتیں وہاں وقف کر دیتا ہے۔ اَب یہاں امنگیں تو ہیں، جذبہ بھی ہے، لیکن نظام ایسا کوئی پلیٹ فارم ہی نہیں دیتا، جہاں نوجوان اپنی صلاحیتوں کا اِظہار کرسکے۔ ایسی صورتِ حال میں نوجوانوں کو محض آرزوئیں اور اُمنگیں رکھنا کوئی فائدہ نہیں دے گا، جیسا کہ قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ 
    اگر نوجوان نسل درست علم کی بنیاد پر، درست سمت میں جدوجہد کرتی ہے تو بہتری کی اُمید لگائی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے علم و عمل دونوں ٹھیک ہونا ضروری بلکہ لازم و ملزوم ہے۔ اگر نسل نو درست عمل کو اپنا لیتی ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے لیے شعوری جدوجہد کی صورت میں ہے تو ٹھیک، ورنہ مایوسی اور پستی لازم ہے۔ یہاں ایک اَور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ظالمانہ نظام کا محض اُمنگوں اور آرزؤں پہ مضمون نویسی کروانا، دانش ور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو غلط سمت دینے کے مترادف ہے کہ کہیں ان میں اس نظام کی حقیقت یا اسے تبدیل کرنے کی جستجو نہ پیدا ہوجائے۔ اگر مضمون نویسی کے لیے موضوع "پاکستان کی پستی کی وجوہات" یا  
     "آئندہ 25 سالوں میں پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کی حکمت عملی اور درپیش رکاوٹوں کا جائزہ"
     جیسے موضوع ہوتے تو نوجوانوں کی سوچنے کی سمت کچھ اَور ہوتی، لیکن یہ ظالمانہ لارڈمیکالے کا نظامِ تعلیم کبھی نہیں چاہے گا کہ نوجوان کی سوچ تبدیلی کی طرف جائے۔ 
    الحاصل!
     2047ء کا پاکستان کیسا ہوگا؟ اس کے لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ محض اُمنگیں اور آرزوئیں نہ رکھیں، بلکہ مروجہ نظام پہ غور کریں کہ یہ کس علم یا سوچ پہ چل رہا ہے؟ اس ادراک کے بعد وہ درست سمت میں شعوری جدوجہد کریں۔ تاکہ اس ظالمانہ نظام کو عادلانہ نظام سے تبدیل کیا جا سکے۔ نہیں تو 2047ء کے حالات 2022ء سے بدتر ہی ہوں گے۔ بہتری کی محض اُمیدیں رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح کر چکا ہے کہ امیدوں پہ مدار نہیں ہے، بلکہ جو عمل کرو گے اسی کا بدلہ ملےگا۔
     قرآن حکیم میں ایک اَور جگہ ہے کہ "ظنون واوہام حق بات کو واضح کرنے میں کوئی فائدہ نہیں دیتے"۔  سورۃ النجم، آیت نمبر ؛ 28)
    ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اُمنگوں اور آرزؤں سے نکلیں، حقیقت کو پہچانیں اور اس کے لیے شعور حاصل کریں پھر عملی جدوجہد کریں تاکہ پاکستان کی خوش حالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔
    Share via Whatsapp