نہیں آتی ہے آقا کی زباں آتے آتے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نہیں آتی ہے آقا کی زباں آتے آتے

    نہیں آتی ہے آقا کی زباں آتے آتے

    By Irfan Sadiq Published on Nov 11, 2019 Views 7718
    نہیں آتی ہے آقا کی زباں آتے آتے
    تحریر: ابو حاشر، لاہور


    سپیلنگ بی۔۔۔ بڑی بی، چھوٹی بی، ہنی بی۔۔وغیرہ تو سنی ہی ہوں گی یہاں پیش خدمت ہے کچھ ذکر “سپیلنگ بی” کا۔ یہ کیا بلا ہے آخر کار؟
    اس کی تعریف تو ہم یہاں نہیں کرتے ۔ جو تذکرہ ابھی ان سطور میں کریں گے اس سے امید ہے کہ کچھ نہ کچھ پلے پڑ ہی جائے گا۔
    ہم بامر مجبوری ایک معروف پبلک سکول کے آڈیٹوریم میں داخل ہوتے ہیں۔ اندر خال خال مردوزن و بچے موجود ہیں۔ سٹیج پر کوئی پچاس کے قریب کرسیوں پر تین تین کی ٹولیوں میں بچے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے تین تین کی ٹولی مائیک پر آتی ہے ۔۔۔
    سٹیج کی دوسری جانب تین خواتین کے درمیان ایک گورا صاحب بیٹھے ہیں جو اپنے سامنے موجود کارڈز پر سے بدیشی زبان کے الفاظ بدیشی لہجے میں بولتے ہیں اور بچوں کی ٹولی سے تقاضا ہے کہ وہ ان الفاظ کے ہجے بتائیں۔ بچوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ الفاظ کو دہرانے کا تقاضا کریں اور اس کے معانی پوچھ لیں یا اگر چاہیں تو اسے جملے میں استعمال بھی کروالیں۔
    یہ سب جتن اس لیے کہ 40 سیکنڈ میں وہ اس لفظ کے رٹے ہوئے ہجوں کو ذھن میں حاضر کر کے بیان کر سکیں۔
    اجی ، کسی زبان کے ہجے یاد کرنے کے لیے اتنے جتن کرنے پڑیں تو اس زبان کو منہ چھپانا چاہیے۔ یہاں تو 9-9 ، 10-10 سال سے اس زبان کو دن رات سیکھنے والوں کیلیے یہ بات باعث عار ہے کہ وہ اس کے ہجے نہیں کر پا رہے۔ کر بھی کیسے پائیں؟ زبان میں کوئی قاعدہ کلیہ ہو تو کر پائیں نا! ۔۔۔ ایک حرف علت دوسرے کی جگہ استعمال ہو سکتا ہے ۔ ایک لفظ میں وہ ایک آواز نکالتا ہے تو دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں موجود ہو کر بھی وہ عضو معطل کی طرح بے اثر ہوتا ہے۔ اور کہیں دو حرف مل کر کسی تیسرے مستقل حرف کی آواز بھی دینے لگتے ہیں۔
    جیسے۔۔۔ ڈاکیے نے کالج میں جا کر استفسار کیا کہ چیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کہاں ہے؟۔ مسئول نے تصحیح فرمائی کہ سی اور ایچ مل کر 'ک' کی آواز نکالتے ہیں۔ سائل نے کہا اچھا پھر کیمہ صاحب کا بتا دیں وہ کہاں ملیں گے۔۔۔
    زبان کی اپنی ان معذوریوں پر نیم چڑھے کا کام گورا صاحب کا تلفظ تھا! جو لفظ کی درست ادائیگی کے چکر میں بچوں کی قوت سماع کے بھی امتحان کا باعث بن رہا تھا۔
    کچھ بچوں نے دہراؤ! دہراؤ!دہراؤ!۔۔۔۔کا ورد کر کر کے گورا صاحب کے پیسے خوب حلال کروائے۔
    سب سے زیادہ تکلیف دہ بات گورا صاحب کی موجودگی تھی ۔۔۔ ہماری اگلی نسل کو بھنبھوڑنے کیلیے 'درآمد شدہ درندہ' ضروری تھا کیا؟ وہ بھی 72 سال کی نام نہاد آزادی کے بعد ؟
    ایسے میں جب کوئی بچہ بار بار "دہرائیے دہرائیے" پکارتا تھا تو کچھ سکون سا ملتا تھا۔
    اردو ہی کو لے لیجیے! ہم نے تو پرائمری سے نچلے درجے پڑھے نہیں ، لیکن دیکھا یہی ہے کہ تیسرے، سے چوتھے درجے تک ہجے اور ٹوکویں وغیرہ لکھوائے جاتے تھے اور املاء کروائی جاتی تھی۔
    وہاں جن سکولوں کے بچے تھے وہ ڈویژن لاہور کے اعلی پرائیویٹ اور نیم سرکاری سکول کے تھے۔ پروگرام کے اختتام پر جب بچوں کو اپنے والدین اور اساتذہ کے ساتھ گفت و شنید کرتے ہوئے دیکھا تو یہ وہ نسل ہے جو انگریزی میں ہی بات چیت کرتی ہے۔ جو گھر میں آ کر اپنے والدین کو آپس میں علاقائی زبانوں یا اردو میں بات کرنے پر کہتے ہیں Papa! No Urdu! Speak English.
    اور والدین ان کی ایسی باتیں 'بزم یاراں' میں فخریہ طور پر نقل کرتے ہیں۔ حقیقت میں تو شاید ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

    نہ جانے داغ کیوں فرما گئے!!!

    "نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
    کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے"

    ورنہ حقیقت تو یہ ہونی چاہیے ہے کہ:

    نہیں کھیل اے یار! یاروں سے کہہ دو٫
    نہیں آتی ہے آقا کی زباں آتے آتے.

    داغ کے شعر کو مجروح کرنے کیلیے معذرت۔
    افسوس یہ ہے کہ قصہ یہاں ختم ہوتا نہیں نظر آ رہا، ابھی مینڈرین کی غلامی بھی شروع ہونے جا رہی ہے، اس میں سرے سے ہجے ہے ہی نہیں۔!
    ہزاروں کی تعداد میں کانجیاں ہیں ۔۔۔ رٹتے رٹتے تھک جائیں گے۔
    Share via Whatsapp